وہ حدیث جس کا راوی ”مجہول العین“ ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی ایسا تبصرہ نہ ملتا ہو جس سے اس کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا پتہ چل سکے اور اس سے روایت کرنے والا بھی صرف ایک ہی شاگرد ہو جس کے باعث اس کی شخصیت مجہول ٹھہرتی ہو۔
وہ حدیث جس کا راوی ”مجہول الحال“ ہو، یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا کوئی تبصرہ نہ ملتا ہو اور اس روایت کرنے والے کل دو آدمی ہوں جس کے باعث اس کی شخصیت معلوم اور حالت مجہول ٹھہرتی ہو۔ ایسے راوی کو ”مستور“ بھی کہتے ہیں۔
وہ حدیث جس کی سند میں کسی راوی کے نام کی صراحت نہ ہو۔
یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ دیانت دار اورسچے ہوں، اس کافیصلہ دیگر ناقدین کے اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے کیاجاتاہے۔
یعنی حدیث کوروایت کرنے والے تمام لوگ مضبوط حافظہ کے مالک ہوں۔ تنبیہ: متاخرین نے قوت حفظ میں تفاوت کا اعتبار کرتے ہوئے تام الضبط کی بنسبت کم تر ضبط والے روای کی منفرد مرویات کے لئے ”حسن“ کی اصطلاح بنائی ہے لیکن متقدمین ضبط میں یہ تفریق نہیں کرتے تھے بلکہ ہرضابط کی روایت کو وہ صحیح ہی کہتے تھے، اورمتقدمین مین بعض نے جن احادیث کو حسن کہا ہے تو وہ اصطلاحی معنی میں نہیں ہے۔ بعض حضرات بہت بڑی غلط فہمی کے شکارہوگئے ہیں اوریہ سمجھ لیا کہ متقدمین حسن حدیث کوبھی حجت نہیں سمجھتے تھے لیکن ایسا موقف متقدمین میں کسی ایک سے بھی ثابت نہیں دراصل متقدمین ”حسن“ کی اصطلاح استعمال ہی نہیں کرتے تھے بلکہ متاخرین کی اصطلاح میں جوروایت ”حسن“ بنتی ہے متقدمین اسے بھی صحیح ہی کہتے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگوں نے جس سے حدیث نقل کی ہے اس سے ان لوگوں نے اس حدیث کو براہ راست اخذکیا ہو۔