آیت ١١ (لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ) یہ مضمون اس سے پہلے ہم سورة الانعام (آیت ٦١) میں بھی پڑھ چکے ہیں : (وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً ) کہ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے تمہارے اوپر محافظ بھیجتا ہے۔ اللہ کے مقرر کردہ یہ فرشتے اللہ کی مشیت کے مطابق ہر وقت انسان کی حفاظت کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے۔ (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ) آپ اپنی باطنی کیفیت کو بدلیں گے ‘ اس کے لیے محنت کریں گے تو اللہ کی طرف سے بھی آپ کے معاملے میں تبدیلی کردی جائے گی۔ مولانا ظفر علی خان نے اس آیت کی ترجمانی ان خوبصورت الفاظ میں کی ہے : خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
12:۔ یہ تخویف دنیوی ہے۔ لَہٗ کی ضمیر کا مرجع مَنْ اَسَرَّ الخ ہے یعنی ہر انسان کی ھفاظت کے لیے محافظ فرشتے مقرر ہیں الضمیر راجع الی من تقدم ممن اسر بالقول و جھر بہ (روح ج 13 ص 111) ۔ یا ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے یعنی اللہ کے ایسے فرشتے بھی ہیں جو انسانوں کی حفاظت پر مقرر ہیں۔ ای للہ ملائکۃ یتعاقبون بالیل والنھار (خازن و معالم ج 4 ص 7 و قرطبی ج 9 ص 291) ۔ ” مُعَقِّبٰتٌ“ معقبۃ کی جمع ہے مراد فرشتوں کی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی حفاظت کے لیے مقرر کی ہوئی ہیں۔ ” مِنْ اَمْرِ اللہِ “ میں من سببیہ ہے یعنی وہ اللہ کے حکم سے انسان کی حفاظت کرتے ہیں۔ ” و من للسببیۃ ای یحفظونہ من المضار بسبب امر اللہ تعالیٰ لھم بذلک “ (روح ج 13 س 113) یحفظونہ من اجل امر اللہ تعالیٰ ایمن اجل ان اللہ امرھم بحفظہ۔ (مدارک ج 2 ص 187 ۔ 13:۔ پہلے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام اعمال سے واقف ہے پھر فرمایا اس نے بندوں پر محافظ فرشتے مقرر کر رکھے ہیں اب بندوں کو لزوم طاعت اور اجتناب از معصیت کی تنبیہ فرمائی اور ساتھ نافرمانی اور معصیت کے وبال سے آگاہ فرمادیا (روح) ۔ ” مَابقَوْمٍ “ میں مَا موصوفہ ہے اور مراد نعمت و عافیت ہے۔ ” مَابِاَنْفُسِھِمْ “ میں بھی مَا موصوفہ ہے اور مراد احوال صالحہ ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جس قوم کو کسی نعمت و برکت سے نوازا ہو اس وقت تک ان سے اس کو سلب نہیں کرتا جب وہ لوگ اپنی بد اعمالیوں اور معصیتوں کی وجہ سے خود اپنا ستحقاق ضائع نہ کردیں۔ اور جب کسی قوم کی بد اعمالیوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے تباہ و برباد کرنے کا ارادہ فرما لے تو پھر اسے کوئی نہیں روک سکتا اور نہ ان کو اس کے عذاب سے کوئی بچا سکتا ہے۔