(فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا) یہاں کسی بستی پر عذاب استیصال کے نازل ہونے کا ایک اصول بتایا جا رہا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس کا سبب وہاں کے دولت مند اور خوشحال لوگ بنتے ہیں۔ یہ لوگ علی الاعلان اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانیاں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی دیدہ دلیری کے سبب ان کی رسی مزید دراز کی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی عیاشیوں اور من مانیوں میں تمام حدیں پھلانگ کر پوری طرح عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں عوام انہیں ان کے کرتوتوں سے باز رکھنے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتے بلکہ ایک وقت آتا ہے جب وہ بھی ان کے ساتھ جرائم میں شریک ہوجاتے ہیں اور یوں ایسا معاشرہ اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ ایسے میں صرف وہی لوگ عذاب سے بچ پاتے ہیں جو نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے رہے ہوں۔
17:۔ یہ ماقبل ہی سے متعلق ہے۔ یعنی جب ہم کسی قوم میں اپنا رسول بھیجتے ہیں اور ہمارا رسول مسئلہ توحید اور دیگر احکام ان تک پہنچا دیتا ہے اور دلائل واضحہ کے ساتھ موعظہ حسنہ سے ان کو خوب سمجھا سمجھا کر ان پر حجت خداوندی قائم کردیتا ہے مگر وہ اپنی سرکشی اور انکار و عصیان میں سر مست رہتے ہیں اور ہدایت پر نہیں آتے تو ہم انہیں ڈھیل دیدیتے ہیں تاکہ اجل معین تک وہ دل کھول کر فسق و فجور کرلیں پھر مقررہ وقت پر انہیں تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ ” امرنا مترفیھا الخ “ یعنی ہم نے ہر زمانہ میں اپنے پیغمبروں کے ذریعہ ہر بستی کے دولت مند طبقہ کو نیک کاموں کا حکم دیا مگر انہوں نے پیغمبروں کی تبلیغ پر کان نہ دھرا اور فسق و فجور اور ظلم وعصیان میں منہمک ہوگئے ای امرناھم بالطاعۃ اعذار وانذار و تخویفا و وعیداً ففسقا ای فخرجوا عن الطاعۃ عاصین لنا (قرطبی ج 10 ص 234) ۔ دیکھ لو نوح (علیہ السلام) سے لے کر اب تک کتنی ہی سرکش اور نافرمان قوموں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں۔ جنہوں نے اللہ کے پیغمبروں کو جھٹلایا، مسئلہ توحید کو نہ مانا اور ان معجزات کا انکار کیا۔ اے مشرکین مکہ اگر تم نے یہ معجزات باہرہ اور آیات قاہرہ دیکھ کر بھی مسئلہ توحید کو نہ مانا تو اقوام سابقہ کے سے انجام کے لیے تیار رہو۔