• TAFASEER
      OF SURAH-2 VERSE-111
    • Tafaseer
    • Search Quran
    • Register/Login
  • TrueOrators.com
    Islamic Search Engine
    • اللہ
      Name of Allah
    • The Noble Quran
      • by Parah
      • by Surah
      • by Topics
      • by Arabic Word
    • Hadith Collection
      • Sahih Bukhari
      • Sahih Muslim
      • Jam e Tirmazi
      • Sunnan Abu Dawood
      • Sunnan Nisai
      • Sunnan Ibn e Maja
      • Silsila Sahih
      • Musnad Ahmad
      • Muwtta Amam Malik
      • Mishkat
    • PDF Books
    • Articles
    • Orators of Islam

    • Contributors
    • Developers
    • Feedback
    • Introduction

    • Subscribe to Channel
    • Like us on Facebook
    • Follow us on Twitter
  • Report
    this page
    Leave a
    feedback
    Contact with
    developers
    Report this page
    Register / Login
    Select Tafaseer to display
    Surat ul Baqara
    Parah: 1Surah: 2Verse: 111

    سورة البقرة

    وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی ؕ تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾

    And they say, "None will enter Paradise except one who is a Jew or a Christian." That is [merely] their wishful thinking, Say, "Produce your proof, if you should be truthful."

    یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے سوا اور کوئی نہ جائے گا ، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔
    Copy Arabic Copy English Copy Urdu Copy All Languages
    Share on Facebook Share on Twitter Share on Whatsapp
    Create Picture for Post
    • Tafaseer
    • Translations
    • Word by Word
    • Root Words
    Tafseer Ibn-e-Kaseer
    by Amam Ibn-e-Kaseer

    The Hopes of the People of the Book Allah tells; وَقَالُواْ لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن كَانَ هُوداً أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ... And they say, "None shall enter Paradise unless he be a Jew or a Christian." These are their own desires. Allah made the confusion of the Jews and the Christians clear, since they claim that no one will enter Paradise, unless he is a Jew or a Christian. Similarly, Allah mentioned their claims in Surah Al-Ma'idah: نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاوُهُ We are the children of Allah and His loved ones. (5:18) Allah refuted this false claim and informed them that they will be punished because of their sins. Previously we mentioned their claim that the Fire would not touch them for more than a few days, after which they would be put in Paradise. Allah rebuked this claim, and He said about this baseless claim, تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ (These are their own desires). Abu Al-Aliyah commented, "These are wishes that they wished Allah would answer, without basis." Similar was stated by Qatadah and Ar-Rabi bin Anas. Allah then said, ... قُلْ ... Say, meaning, "Say O Muhammad:" ... هَاتُواْ بُرْهَانَكُمْ ... "Produce your Burhan..." Abu Al-Aliyah, Mujahid, As-Suddi and Ar-Rabi bin Anas stated, meaning, "Your proof." Qatadah said that the Ayah means, "Bring the evidence that supports your statement. ... إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ if you are truthful, (in your claim)." Allah then said,

    شیطان صفت مغرور یہودی یہاں پر یہودیوں اور نصرانیوں کے غرور کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو کچھ بھی نہیں سمجھتے اور صاف کہتے ہیں کہ ہمارے سوا جنت میں کوئی نہیں جائے گا سورۃ مائدہ میں ان کا ایک قول یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اولاد اور اس کے محبوب ہیں جس کے جواب میں قرآن نے کہا کہ پھر تم پر قیامت کے دن عذاب کیوں ہو گا ؟ اسی طرح کے مفہوم کا بیان پہلے بھی گزرا ہے کہ ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ ہم چند دن جہنم میں رہیں گے جس کے جواب میں ارشاد باری ہوا کہ یہ دعویٰ بھی محض بےدلیل ہے اسی طرح یہاں ان کے ایک دعویٰ کی تردید کی اور کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو ، انہیں عاجز ثابت کر کے پھر فرمایا کہ ہاں جو کوئی بھی اللہ کا فرمانبردار ہو جائے اور خلوص و توحید کے ساتھ نیک عمل کرے اسے پورا پورا اجر و ثواب ملے گا ، جیسے اور جگہ فرمایا کہ یہ اگر جھگڑیں تو ان سے کہ دو کہ میں اور میرے ماننے والوں نے اپنے چہرے اللہ کے سامنے متوجہ کر دیئے ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ اخلاص اور مطابقت سنت ہر عمل کی قبولیت کے لئے شرط ہے تو اسلم وجھہ سے مراد خلوص اور وھو محسن سے مراد اتباع سنت ہے نرا خلوص بھی عمل کو قمبول نہیں کرا سکتا جب تک سنت کی تابعداری نہ ہو حدیث شریف میں ہے جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہ ہو وہ مردود ہے ( مسلم ) پس رہبانیت کا عمل گو خلوص پر مبنی ہو لیکن تاہم اتباع سنت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مردود ہے ایسے ہی اعمال کی نسبت قرآن کریم کا ارشاد ہے آیت ( وَقَدِمْنَآ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَـعَلْنٰهُ هَبَاۗءً مَّنْثُوْرًا ) 25 ۔ الفرقان:23 ) یعنی انہوں نے جو اعمال کئے تھے ہم نے سب رد کر دیئے دوسری جگہ فرمایا کافروں کے اعمال ریت کے چمکیلے تودوں کی طرح ہیں جنہیں پیاسا پانی سمجھتا ہے لیکن جب اس کے پاس جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا اور جگہ ہے کہ قیامت کے دن بہت سے چہروں پر ذلت برستی ہو گی جو عمل کرنے والے تکلیفیں اٹھانے والے ہوں گے اور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے اور گرم کھولتا ہوا پانی انہیں پلایا جائے گا ۔ حضرت امیر المومنین عمر بن خطاب نے اس آیت کی تفسیر میں مراد یہود و نصاریٰ کے علماء اور عابد لئے ہیں یہ بھی یاد رہے کہ کوئی عمل گو بظاہر سنت کے مطابق ہو لیکن عمل میں اخلاص نہ ہو مقصود اللہ کی خوشنودی نہ ہو تو وہ عمل بھی مردود ہے ریا کار اور منافق لوگوں کے اعمال کا بھی یہی حال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور وہ انہیں دھوکہ دیتا ہے اور نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں اور فرمایا آیت ( فویل للمصلین ) ان نمازیوں کے لئے ویل ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں جو ریاکاری کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی روکتے پھرتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت ( فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا ) 18 ۔ الکہف:110 ) جو شخص اپنے رب کی ملاقات کا آرزو مند ہو اسے نیک عمل کرنا چاہئے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا چاہئے پھر فرمایا انہیں ان کا رب اجر دے گا اور ڈر خوف سے بچائے گا آخرت میں انہیں ڈر نہیں اور دنیا کے چھوڑنے کا ملال نہیں ۔ پھر یہود و نصاریٰ کی آپس کی بغض و عداوت کا ذکر فرمایا ، نجران کے نصرانیوں کا وفد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو ان کے پاس یہودیوں کے علماء بھی آئے اس وقت ان لوگوں نے انہیں اور انہوں نے ان کو گمراہ بتایا حالانکہ دونوں اہل کتاب ہیں توراۃ میں انجیل کی تصدیق اور انجیل میں توراۃ کی تصدیق موجود ہے پھر ان کا یہ قول کس قدر لغو ہے ، اگلے یہود و نصاریٰ دین حق پر قائم تھے لیکن پھر بدعتوں اور فتنہ پردازیوں کی وجہ سے دین ان سے چھن گیا اب نہ یہود ہدایت پر تھے نہ نصرانی پھر فرمایا کہ نہ جاننے والوں نے بھی اسی طرح کہا اس میں بھی اشارہ انہی کی طرف ہے اور بعض نے کہا مراد اس سے یہود و نصاریٰ سے پہلے کے لوگ ہیں ۔ بعض کہتے ہیں عرب لوگ مراد ہیں امام ابن جریر اس سے عام لوگ مراد لیتے ہیں گویا سب شامل ہیں اور یہی ٹھیک بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرمایا کہ اختلاف کا فیصلہ قیامت کو خود اللہ تعالیٰ کرے گا جس دن کوئی ظلم و زور نہیں ہو گا اور یہی مضمون دوسری جگہ بھی آیا ہے سورۃ حج میں ارشاد ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ) 22 ۔ الحج:17 ) یعنی مومنوں اور یہودیوں اور صابیوں اور نصرانیوں اور مجوسیوں اور مشرکوں میں قیامت کے دن اللہ فیصلہ فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر گواہ اور موجود ہے اور جگہ ارشاد ہے آیت ( قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بِالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ ) 34 ۔ سبأ:26 ) کہہ دے کر ہمارا رب ہمیں جمع کرے گا پھر حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا وہ باخبر فیصلے کرنے والا ہے ۔

    Amam Ibn-e-Kaseer (intro)

    حافظ عماد الدین ابن کثیر۔
    نام نسب : اسماعیل کنیت : ابوالفداء لقب : عماد الدین اور ابن کثیر عرف ہے
    سلسلہ نسب یہ ہے : اسماعیل بن عمر بن کثیر بن ضوء بن ذرع القیسی البصروی ثم الدمشقی
    آپ ایک معزز اور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔ آپ کے والد شیخ ابوحفص شہاب الدین عمر اپنی بستی خطیب تھے آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالوہاب ایک ممتاز عالم اور فقیہ تھے۔
    ولادت و تعلیم و تربیت : آپ کی ولادت ٧٠٠ ھ میں بمقام مجدل ہوئی جو ملک شام کے مشہور بصریٰ کے اطراف میں ایک قریہ ہے ، اس وقت آپ کے والد یہاں کے خطیب تھے ، ابھی آپ تیسرے یا چوتھے برس میں ہی تھے کہ والد بزرگوار نے ٧٠٣ ھ میں وفات پائی اور نہایت ہی کم سنی میں آپ یتیمی کا داغ اٹھانا پڑا، باپ کا سایہ سر سے اٹھا تو بڑے نے اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ والد کی وفات کے تین سال بعد یعنی ٧٠٦ ھ میں آپ اپنے برادر بزرگوار کے ساتھ دمشق چلے آئے اور پھر یہیں آپ کی نشو و نما ہوئی ، ابتدا میں اپنے بڑے بھائی سے فقہ کی تعلیم پائی بعد کو شیخ برھان الدین ابراہیم بن عبدالرحمن فرازی معروف بہ ابن فرکاح شارخ تنبیہ المتوفی ٧٢٩ ھ اور شیخ کمال الدین قاضی شہبہ سے اس فن کی تکمیل کی ، اس زمانہ میں دستور تھا کہ طالب علم جس فن کو حاصل کرتا اس فن کی کوئی مختصر کتاب زبانی یاد کرلیتا۔ چناچہ آپ نے بھی فقہ کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ ، مصنفہ شیخ ابواسحاق شیرازی المتوفی ٤٧٦ ھ کو حفظ کرکے ٧١٨ ھ میں سنادیا اور اصول فقہ میں علامہ ابن حاجب مالکی المتوفی ٧٤٦ ھ کی مختصر کو زبانی یاد کیا۔ اصول کی کتابیں آپ نے علامہ شمس الدین محمود بن عبدالرحمن اصفہانی شارح مختصر ابن حاجب المتوفی ٧٤٩ ھ سے پڑھی تھیں۔
    فن حدیث کی تکمیل آپ نے اس عہد کے مشہور اساتذہ فن سے کی تھی ، علامہ سیوطی ، ذیل تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں ۔ سمع الحجازوالطبقۃ یعنی حجاز اور اس طبقہ کے علماء سے آپ نے سماع حدیث کیا۔
    حجاز کے ہم طبقہ وہ علماء جن سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا اور جن کا ذکر خصوصیت سے آپ کے تذکرہ میں علماء نے کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں (١) عیسیٰ بن المعطعم ّ (٢) بہاؤالدین قاسم بن عساکر المتوفی ٧٢٣ ھ (٣) عفیف الدین اسحاق بن یحییٰ الامدی المتوفی ٧٢٥ ھ (٤) محمد بن زراد (٥) بدرالدین محمد بن ابراہیم معروف بہ ابن سویدی المتوفی ٧١١ ھ (٦) ابن الرضی (٧) حافظ مزی (٨) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (٩) حافظ ذہبی (١٠) عمادالدین محمد بن الشیرازی المتوفی ٧٤٩ ھ۔
    لیکن ان تمام حضرات میں سب سے زیادہ جس سے آپ کو استفاد ہ کا موقع ملا وہ محدث شام حافظ جمال الدین یوسف بن عبدالرحمن مزی شافعی مصنف تہذیب الکمال المتوفی ٧٤٢ ھ ہیں ۔ حافظ مزی نے خصوصی تعلق کی بناء پر اپنی صاحبزادی کا آپ سے نکاح کردیا تھا ۔ اس رشتہ نے اس تعلق کو اور زیادہ استوار کردیا۔ سعادت مند شاگرد نے اپنے محترم استاذ کی شفقت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ، مدت مدید تک حاضر خدمت رہے اور ان کی اکثر تصانیف کا جس میں تہذیب الکمال بھی داخل ہے بھی داخل ہے ، خود ان سے سماع کیا اور اس فن کی پوری تکمیل ان ہی کی خدمت میں رہ کر کی
    چنانچہ سیوطی لکھتے ہیں وتخرج بالمزی ولازمہ وبرع۔ اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ المتوفی ٧٢٨ ھ سے بھی آپ نے بہت کچھ علم حاصل کیا تھا اور عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے تھے۔
    حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ مصر سے آپ کو دیوسی ، وانی اور ختنی وغیرہ نے حدیث کی اجازت دی تھی۔
    منزلت علمی : امام ابن کثیر کو علم حدیث کے علاوہ فقہ ، تفسیر ، تاریخ اور عربیت میں بھی کمال حاصل تھا ، چناچہ علامہ ابن العماد حنبلی ، ابن حبیب سے ناقل ہیں ۔ انتھت الیہ ریاستہ العلم فی التاریخ و الحدیث والتفسیر (ان پر تاریخ ، حدیث اور تفسیر میں ریاست علمی ختم ہوگئی۔
    درس وافتاء ، ذکر الٰہی شگفتہ مزاجی :۔ حافظ ابن کثیر کی تمام عمر درس وافتاء اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی ۔ حافظ ذہبی کی وفات کے بعد مدرسہ ام صالح اور مدرسہ تنکریہ (جو اس زمانہ میں علم حدیث کے مشہور مدرسے تھے ) میں آپ شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ، بڑے ذاکر شاغل تھے ، چناچہ ابن حبیب نے آپ کے متعلق لکھا کہ امام ذی التسبیح والتھلیل طبیعت بڑی شگفتہ پائی تھی ۔ لطیفہ گو اور بذلہ سنج تھے ، حافظ ابن حجر نے آپ کے اوصاف میں حسن الفاکہۃ کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، یعنی بڑا پر لطف مزاح کیا کرتے تھے۔
    شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق : اخیر میں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ حافظ ابن کثیر کو اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ سے خصوصی تعلق تھا ، جس نے آپ کی علمی زندگی پر گہرا اثر ڈالا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آپ بعض ان مسائل میں بھی امام ابن تیمیہ سے متاثر تھے جن میں وہ جمہور سلف سے متفرد ہیں ، چناچہ ابن قاضی شہبہ اپنے طبقات میں لکھتے ہیں
    '' کانت لہ خصوصیۃ بابن تیمیہ مناضلتہ عنہ و اتباع لہ فی کثیر من ارایئہ وکان یفتی برایہ فی مسئلتہ الطلاق وامتحن بسبب ذالک واوذی ''۔
    ان کو ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا اور ان کی طرف سے لڑا کرتے تھے اور بہت سی آراء میں ان کی اتباع کرتے تھے چناچہ طلاق کے مسئلہ میں بھی انہی کی رائے پر فتوی دیتے تھے جس کے نتیجے میں آزمائش میں پڑے اور ستائے گئے۔
    وفات :
    اخیر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی ، جمعرات کے دن شعبان کی چھبیس تاریخ ٧٧٤ ھ میں وفات پائی (رحمتہ اللہ ) اور مقبرہ صوفیہ میں اپنے محبوب استاذ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے پہلو میں دفن کئے گئے ، آپ کے کسی شاگرد نے آپ کی وفات پر بڑا درد انگیز مرثیہ لکھا ہے، جس کے دو شعر یہ ہیں
    لفقدک طلاب العلوم تاسفوا وجادوابدمع لایبیدغزیر
    ومزجواماء المدامع بالدما لکان قلیلا فیک یا ابن کثیر
    ترجمہ (شائقین علوم تمہارے اٹھ جانے پر متاسف ہیں ، اس کثرت سے آنسو بہا رہے ہیں کہ تھمنے ہی کو نہیں آتے اور اگر وہ آنسوؤں کے ساتھ لہو بھی ملا دیتے تب بھی اے ابن کثیر تمہارے لئے تھوڑے تھے)
    پسماندگان
    پسماندگان میں دو صاحبزادے بڑے نامور چھوڑے تھے ، ایک زین الدین عبدالرحمن جن کی وفات ٧٩٢ ھ میں ہوئی اور دوسرے بدرالدین ابوالبقاء محمد۔ یہ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں ۔ انہوں نے ٨٠٣ ھ میں بمقام رملہ وفات پائی ، ان دونوں کا ذکر حافظ بن فہد نے اپنے ذیل میں بسلسلہ وفیات کیا ہے۔
    تصنیفات :
    آپ نے تفسیر ، حدیث ، سیر ت اور تاریخ میں بڑی بلند پایہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں، یہ آپ کے اخلاص کا ثمرہ اور حسن نیت کی برکت تھی کہ بارگاہ ایزدی سے ان کو قبول عام اور شہرت دوام کی مسند عطا ہوئی، مورخین نے آپ کے تصانیف کی افادیت اور ان کی قبولیت کا ذکر خاص طور سے کیا ہے ، ذہبی لکھتے ہیں ، ولہ تصانیف مفیدۃ ابن حجر کہتے ہیں ۔
    '' سادت تصانیفہ فی البلادفی حیاتہ وانتفع الناس بھا بعد وفاتہ ''
    ان کی زندگی میں ان کی تصانیف شہر شہر جا پہنچیں اور ان کی وفات کے بعد لوگ ان سے نفع اندوز ہوتے رہے۔
    آپ کی جن تصانیف پر ہمیں اطلاع ملی ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
    (١) تفسیر القرآن العظیم : جس کے متعلق حافظ سیوطی تصریح کرتے ہیں کہ اس طرز پر دوسری تفسیر نہیں لکھی گئی ، یہ تفسیر بالروایہ میں سب سے زیادہ مفید ہے۔
    (٢) البدایہ والنہایہ : یہ فن تاریخ میں ان کی بیش بہا تصانیف ہیں اور مصر سے طبع ہو کر شائع ہوچکی ہے اس میں ابتدائے کائنات سے لے کر احوال آخرت تک درج ہیں۔
    (٣) التکمیل فی معرفتہ الثقات والضعفاء والمجاہیل :
    (٤) الہدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن : یہی کتاب ہے جو جامع المسانید کے نام سے مشہور ہے۔
    (٥) طبقات الشافعیہ : اس میں فقہاء شافعیہ کا تذکرہ ہے ۔
    (٦) مناقب الشافعی : یہ رسالہ امام شافعی کے حالات میں ہے ۔
    (٧) تخریج احادیث ادلتہ التنبیہ۔
    (٨) تخریج احادیث مختصر ابن حاجب ، التنبیہ اور مختصر یہ دونوں کتابیں وہی ہیں جن کو مصنف نے عہد طالب علمی میں حفظ کیا تھا، ان دونوں کتابوں میں کتب حدیث سے تخریج بھی لکھی ہے۔
    (٩) شرح صحیح بخاری ک : اسکی تصنیف بھی شروع کی تھی مگر ناتمام رہ گئی ' کشف الطنون میں ہے کہ صرف ابتدائی ٹکڑے کی شرح ہے۔ مصنف نے اس کا ذکر اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
    (١٠) الاحکام الکبیر : یہ کتاب بہت بڑے پیمانہ پر احادیث احکام میں لکھنی شروع کی تھی ' مگر کتاب الحج تک لکھ سکے تمام نہ کرسکے ' مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اس کتاب کا بھی ذکر کیا ہے۔
    (١١) اختصار علوم الحدیث : نواب صدیق حسن خاں نے منہج الوصول فی اصطلاح احادیث الرسول میں اس کا نام الباعث الحثیث علی معرفتہ علوم الحدیث لکھا ہے ' یہ علامہ ابن صلاح المتوفی ٦٤٣ ھ کی مشہور کتاب '' علوم الحدیث '' معروف بہ مقدمہ ابن صلاح کا جو اصول حدیث میں ہے ' اختصار ہے ' مصنف نے اس میں جابجا مفید اضافے کئے ہیں ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں ولہ فیہ فوائد (اس کتاب میں حافظ ابن کثیر کے بہت سے افادات ہیں ۔ )
    (١٢) مسند الشیخین : اس میں شیخین یعنی حضرت ابوبکر و عمر (رض) سے جو حدیثیں مروی ہیں انکو جمع کیا گیا ہے۔ مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں اپنی ایک تصنیف مسند عمر (رض) کا ذکر کیا ہے ۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آیا وہ مستقل علیحدہ کتاب ہے یا اسی کا حصہ ثانی ہے۔
    (١٣) السیرۃ النبویہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : یہ سیرت پر بڑی طویل کتاب ہے۔
    (١٤) الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول : یہ سیرت پر ایک مختصر کتاب ہے ۔ مصنف نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں سورة احزاب کے اندر غزوہ خندق کے بیان میں کیا ہے ۔ اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں کتب خانہ شیخ الاسلام میں موجود ہے۔
    (١٥) کتاب المقدمات : اس کا ذکر مصنف نے اختصار علوم الحدیث میں کیا ہے۔
    (١٦) مختصر کتاب المدخل للبیہقی : اس کا ذکر بھی اختصار الحدیث کے مقدمہ میں کیا ہے۔
    (١٧) الاجتہاد فی طلب الجہاد : جب فرنگیوں نے قلعہ ایاس کا محاصرہ کیا اس وقت آپ نے یہ رسالہ امیر منجک کے لئے لکھا ' یہ رسالہ مصر سے چھپ کر شائع ہوچکا ہے۔
    (١٨) رسالتہ فی فضائل القرآن : یہ رسالہ بھی تفسیر ابن کثیر کیساتھ مطبع المنار مصر میں طبع ہوچکا ہے۔
    (١٩) مسند امام احمد بن حنبل کو بھی حروف پر مرتب کیا تھا اور اسکے ساتھ طبرانی کی معجم اور ابو یعلی کی مسند سے زوائد بھی درج کئے تھے ۔ امام ابن کثیر کی تمام تصانیف میں یہ خوبی عیاں ہے کہ جو کچھ لکھتے ہیں نہایت تحقیق کیساتھ لکھتے ہیں اور مفصل لکھتے ہیں ' عبارت سہل اور پیرایہ بیان دلکش ہوتا ہے۔

    Ahsan ul Bayan
    by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

    111۔ 1 یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جا رہا ہے جس میں وہ مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔

    Shah Fahd Abdul Azeez (al saud) (intro)

    مقدمہ
    ازقلم معالی اشیخ صالح بن عبدالعزیزبن محمد آل الشیخ
    وزیر اسلامی امور اوقاف اور دعوت وارشاد
    نگران اعلٰی مجمع الملک فہد

    خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبدالعزیز آل سعود حفظہ اللہ نے کتاب الہٰی کی خدمت کے سلسلہ میں جو ہدایات دی ہیں ان میں قرآن مجید کی طباعت ، وسیع پیمانے پر مسلمانان عالم میں اس کی تقسیم کے اہتمام اور دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ و تفسیر کی اشاعت پر خاص طور سے زور دیا گیا ہے۔
    وزارۃالشؤون الاسلامیۃ والأوقاف والدعوۃ والارشاد
    کی نظرمیں عربی زبان سے ناواقف مسلمانوں کےلئےقرآن فہمی کی راہ ہموارکرنے اور تبلیغ کی اس ذمہ داری سے عہدہ برآہونےکےلئےجورسول اکرم ﷺ کےارشادگرامی : بلغوا عنی ولوآیۃ : (میری جانب سے لوگوں تک پنچاؤخواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ) میں بیان کی گئی ہے، دنیا کے تمام اہم زبانوں میں قرآن مجید کے مطا لب کو منتقل کیا جانا انتہائ ضروری ہے۔

    Taiseer ul Quran
    by Abdul Rehman Kilani

    Abdul Rehman Kilani (intro)

    مفسر مرحوم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی (رح)

    مولانا عبدالرحمان کیلانی مرحوم بہت ہی سادہ اور دویش صفت انسان تھے انہوں نے گھر اور باہر جب بھی انہیں دیکھا سفید لباس میں دیکھا سفید لباس ' تہبند اور قمیص پر مشتمل ہو یا شلوار قمیض پر سر پر ہمیشہ سفید رومال رکھتے اور بازار جاتے وقت سیاہ رنگ کی جناح کیپ استعمال کرتے لکھنے کے لئے ہمیشہ کوئی بھی معمولی سا قلم اور سواری کے لئے سائیکل ہی استعمال کی۔ مالی طور پر خوب مستحکم تھے مگر اس کے باوجود کبھی تصنع یا بڑائی کا اظہار نہیں کیا ۔
    والد مرحوم چار بھائی تھے۔ ان چار بھائیوں میں چار چار سال کا فرق تھا اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ پہلے تینوں بھائی اسی ترتیب سے چار چار سال وقفے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بچپن میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کرتے اور کبھی دکان کے ذریعہ اپنے والد صاحب کا ہاتھ بٹایا ۔ ان حالات میں ہمیشہ ہر امتحان میں اعلی کامیابی اور وظیفہ حاصل کیا۔ بی اے۔ کا امتحان گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے نہ دے سکے ۔
    محترم ابا جان نے فوج میں ملازمت کی اور فوج سے صرف اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ملازمت داڑھی رکھنے سے مانع تھی جب کہ انہیں داڑھی منڈوانا منظور نہ تھا۔ حالانکہ محکمہ نے انہیں پر وموشن اور تنخواہ میں اضافے کا بھی لالچ دیا مگر یہ چیزیں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ان کے سامنے ہیچ تھیں۔
    استعفی کے بعد کتابت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ١٩٤٧ ء سے ١٩٦٥ ء تک اردو کتابت کی اور اس وقت کے سب سے بہتر ادارے ، فیروز سنز سے منسلک رہے ۔ ١٩٦٥ ے میں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔ غالبا ٥٠ کے قریب قرآن مجید کی کتابت کی سعادت حاصل کی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ١٩٧٢ ء میں حج کرنے گئے تو مکی سورتوں کی کتابت باب بلال (مسجد حرام ) میں بیٹھ کر کی اور مدنی سورتوں کی کتابت مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پر بیٹھ کر کی ۔ الحمد للہ اس تفسیر میں قرآن مجید کی اسی بابرکت کتابت کو ہی بطور متن قرآن شائع کیا جارہا ہے۔ (ایں سعادت بزور بازو نیست ! )
    ١٩٨٠ ء کے بعد جب انہیں فکر معاش سے قدرے آزادی نصیب ہوئی تو تصنیف و تالیف کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اس میدان میں بھی ماشاء اللہ علماء و مصنفین حضرات کی صف میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ مرحوم نے معاشرت ' معیشت ' سیاست ' عقائد اور جدید دینی مسائل پر تحقیق و تنقید کی اور علمی حلقوں میں داد تحسین پائی۔ ابا جان مرحوم کی تصانیف میں سے مترادفات القرآن ' آئینہ پرویزیت ' شریعت و طریقت ' خلافت و جمہوریت ' تجارت اور لین دین کے مسائل ' عقل پرستی اور انکار معجزات ' روح ' عذاب قبر اور سماع موتی ' احکام ستر و حجاب ' اسلام میں دولت کے مصارف اور الشمس والقمر بحسبان ہیں ۔ انکی وفات کے بعد جب ان کے مسودات وغیرہ دیکھے گئے تو کئی ایک غیر مطبوعہ کتب بھی ملیں جو وہ مکمل کرچکے تھے ۔ ان میں سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت سپہ سالار طبع ہوچکی ہے ۔ '' محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر و ثبات کے پیکر اعظم اور ایک مجلس کی تین طلاقیں اور انکا شرعی حل ' بھی زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی ان کے مفصل علمی مقالہ جات موجود ہیں۔
    آخری عمر میں وہ قرآن مجید کی ایک تفسیر لکھ رہے تھے ۔ انکی خواہش تھی کہ ا سکوخود طبع کروائیں مگر عمر نے وفا نہ کی انکی وفات کے بعد الحمد للہ اس تفسیر کو چھپوانے کا اعزاز ہمیں حاصل ہوا ہے '' تیسیرالقرآن '' نے چند ہی سالوں میں دوسری متداول تفاسیر میں اپنی امتیازی حیثیت کو تسلیم کروا لیا ہے۔ اس تفسیر میں انہوں نے آیت کے ساتھ مطابقت رکھنے والی احادیث کا با حوالہ ذکر کیا ہے اور صحاح ستہ سے ہی احادیث لی ہیں۔ مروجہ اردو تفاسیر کے انداز میں لکھی جانے والی اس تفسیر کی اضافی خوبی یہ ہے کہ حاشیہ میں ذیلی سرخیوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ تفسیر ٤ جلدوں میں ہے۔
    محترم ابا جان نے دو دفعہ قومی سیرت کانفرنس میں صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ مقالے '' اصلاح معاشرہ '' اور '' پیغمبراسلام داعی امن و اخوت '' کے موضوعات پر تھے۔ مرحوم اپنی زندگی میں اتنا کام کرگئے کہ جید علماء جن کے پاس مستقل ادارے اور ملازمین ہیں حیران ہوتے ہیں کہ مرحوم کس طرح اکیلے یہ سارے کام کرتے ۔ ساتھ ہی ساتھ اتنی تحقیق اور معلوماتی کتب تصنیف کیں کہ جن سے آج تک علمی حلقے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
    ١٨ دسمبر ١٩٩٥ ء کو رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ وضو کیا اور مسجد کی طرف چل دئیے۔ جاکر پہلی صف میں دائیں طرف جگہ ملی پہلے سجدہ کے دوران روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ ساتھ والے نمازی نے اپنی نماز توڑ کر انکو پانی پلانے کی کوشش کی ۔ مگر بےسود۔۔۔۔۔ ایسی پرسکون ' اطمینان بخش موت کہ جس کی ہر مسلمان بجا طور تمنا کرسکتا ہے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین
    پروفیسر نجیب الرحمن کیلانی
    ( تفسیر تیسیر القرآن مفصل کو مولانا عبدالرحمن کیلانی مرحوم کے چاروں بیٹوں اور چاروں بیٹوں اور ان کی دوسری زوجہ محترمہ کی طرف سے اجازت کے بعد ہم CD پر لا رہے ہیں۔
    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمن کیلانی اور ان کی پہلی زوجہ محترم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔
    اس تفسیر کو محترم والد صاحب ، والدہ صاحبہ، اور ہم سب بہن بھائیوں اور ہماری دوسری والدہ محترمہ کیلئے صدقہ جاریہ بنائے ۔ عامۃ الناس کے لئے اس تفسیر کو نافع بنائے۔ آمین )

    Tafseer al Quran
    by Abdul Salam Bhatvi

    آیت میں ایک لمبی بات مختصر کردی گئی ہے، یعنی یہودیوں نے کہا جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے مگر جو یہودی ہوں گے اور نصاریٰ نے کہا کہ جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے مگر جو نصاریٰ ہوں گے، کیونکہ ان میں سے کوئی فریق بھی دوسرے کے جنت میں جانے کا عقیدہ نہیں رکھتا تھا۔ فرمایا، یہ ان کی آرزوئیں ہی ہیں، حقیقت سے ان کا کچھ تعلق نہیں۔ اگر یہ سچے ہیں تو اپنی دلیل پیش کریں۔ رازی (رض) نے فرمایا، اس آیت سے ثابت ہوا کہ کوئی بھی دعویٰ کرنے والا، خواہ نفی کا دعویٰ کرے یا اثبات کا، اس پر دلیل اور برہان پیش کرنا لازم ہے اور یہ تقلیداً کہی ہوئی بات کے باطل ہونے کی سب سے سچی اور پکی دلیل ہے۔ (کیونکہ تقلید نام ہی کسی بات کو بلا دلیل قبول کرنے کا ہے) ۔ (اَمَانِيُّھُمْ ) خبر معرفہ ہونے کی وجہ سے ترجمے میں ” ہی “ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ آج کل مسلمان بھی محض آرزوؤں اور خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں، حالانکہ نام کا اسلام نہ دنیا میں عزت کا ضامن ہے نہ آخرت میں۔

    Abdul Salam Bhatvi (intro)

    ترجمہ و تفسیر القرآن الکریم
    تفسیر القرآن الکریم۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی
    مصنف کا تعارف :
    حافظ عبدالسلام علوم القرآن اور علوم الحدیث میں ایک مقام کے حامل ہیں۔ موصوف کا مکمل نام ابوعبدالرحمن حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی ہے۔ حافظ صاحب اگست 1946 کو گوہڑ چک نمبر 8 ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔
    تعلیم :
    آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ابتدائی علوم دینیہ کا بھی سلسلہ جاری رکھا۔ پھر آپ نے میٹرک کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کیا۔ موصوف نے میٹرک کے بعد درس نظامی، فاضل عربی، فاضل فارسی اور فاضل طب کی تعلیم حاصل کی۔
    اساتذہ :
    مترجم نے ابتدائی و اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ مثلاً محمد گوندلوی، مولانا محمد عبدہ الفلاح، مولانا صادق خلیل، قاری اسلم اور مولانا شریف اللہ سواتی وغیر۔ حافظ صاحب نے ترجمہ قرآن کے علاوہ اور بھی کتابیں لکھیں ہیں۔ مثلاً ایک دین چار مذہب۔ چوری کے متعلق قانون الہی، مقالات طیبہ۔ احکام زکوۃ و عشر و صدقہ فطر۔ ترجمۃ القرآن الکریم۔ شرح کتاب الطہارہ من بلوغ المرا۔ شرح کتاب الجامع من بلوغ المرا وغیرہ۔
    حافظ صاحب نے 17 سال کی عمر میں تدریس کا آغاز کیا۔ 1966 سے 1992 تک جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں پڑھایا۔ اس وقت سے لے کر تاحال تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیںَ
    خصوصیات ترجمہ وتفسیر :
    1 ۔ تاکید کے الفاظ کا ترجمہ بھی تاکید سے کیا گیا ہے۔
    2 ۔ مبالغہ کے صیغوں کا ترجمہ بھی اضافہ سے کیا گیا ہے۔
    3 ۔ صیغوں کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
    4 ترجمہ کمی و بیشی کے بغیر بامحاورہ اردو زبان میں ہے۔
    5 ۔ آسان فہم اور رائج اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
    6 ۔ صرف و نحو کے اصول و قواعد کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں استعمال ہونے والے حروف ربط، حروف جر، وغیرہ کا بھی موقع کی مناسبت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

    Maarif ul Quran
    by Mufti Muhammad Shafi

    The Jews and the Christians were hostile not only to the Muslims, but also to each other. They had forgotten the essence of religion --that is, adherence to the true and authentic doctrines, and performance of good deeds as laid down by the Shari ah -- and had identified it with a mere affiliation to a racial or social community. Each of the two groups claimed that it had the exclusive right to go to the Paradise, without having any argument to substantiate the claim. The Jews read the Torah, while the Christians read the Evangel, and they could have easily seen that the two Books confirm each other. Each party used to assert, in its malice, that the religion of the other was baseless. This gave an excuse to the mushrikin (associators) who, in spite of their ignorance, began to say the same of both the religions. The Holy Qur an dismisses these pretensions as mere fancy and self-delusion. It declares that other people too will go to Paradise who have, in their time, been following the Shari ah of their own prophet, and who, now that the Holy Qur an also has abrogated all the earlier Divine Books, follow the Islamic Shari ah. Verse 112 lays down the general principle in this respect, which is accepted by the followers of all the Divine Books. The essence of religion, whether it be Islam or Christianity or Judaism, lies in two things. (1) One should obey Allah in one s belief as well as in one s actions. (2) This obedience should not arise from expediency, but one should surrender oneself to divine commandments in all sincerity. Moreover, it is not enough to be worthy of Paradise merely to have a sincere intention to obey Allah, and then to invent, according to one s own fancy, the modes and forms of obedience, for it is absolutely essential that the forms of worship and the modes of obedience should be no other than those which Allah Himself has appointed through the agency of His prophets -- it goes without saying that since the revelation of the Holy Qur an this can only mean accepting and following the Islamic Shari ah. We may add that in connection with the first of these two principles, the Holy Qur an employs the Arabic word اَسلمَ : Aslama which signifies total submission to Allah, and in connection with the second word Muhsin محسن ، which signifies |"one who performs good deeds|" according to the Shari ah. The differences between the Jews and the Christians In so far as these verses deal with the claims of the Jews and the Christians, the point of the argument is this:- Having laid down the two principles the acceptance of which makes one worthy of Paradise, the Holy Qur an suggests that they should now try to find out who is really acting upon them. Obviously, one who keeps following an injunction even after it has been abrogated cannot be described as obedi¬ent, and hence the Jews and the Christians no longer deserve this ti¬tle. After the abrogation of an injunction, obedience consists in acting upon the new injunction which has replaced the earlier one. This con¬dition is now being fulfilled only by the Muslims who have accepted the latest and the last Prophet (رض) and his Shari ah. Hence, they alone shall now be considered worthy of Paradise. The condition of one s be¬ing sincere in one s obedience excludes the hypocrites too, for the Sha i` ah counts them among the infidels, and thus assigns them to Hell. Verse 112 also announces the reward of those who act upon these principles -- on the Day of Judgment, they shall have nothing to fear, nor shall they grieve, as angels will give them good tidings. As for the debates among the Jews, the Christians and the associators, Verse 113 declares that Allah will Himself decide the question finally on the Day of Judgment. In fact, the question has already been settled on the basis of what Allah has revealed in His Books as well as on the basis of rational argument; the final decision on the Day of Judgment will be of the visible kind -- those who follow the Truth will be sent to Paradise, while those who go after falsehood will be cast down in Hell. These verses provide a warning to the Muslims as well, lest they too should delude themselves like the Jews and the Christians, and suppose that merely because they belong to the social community of Muslims and can, as such, claim to be Muslims, whereby they can dis¬pense with the need to obey Allah and to follow the Shari` ah, and yet receive the rewards Allah has promised to give to true Muslims. Even Muslims have no right to hope for these rewards until and unless they submit themselves totally, in thought and deed both, to the command¬ments of Allah and His Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) .

    خلاصہ تفسیر : اور یہود نصاریٰ (یوں) کہتے ہیں کہ بہشت میں ہرگز کوئی نہ جانے پاوے گا بجز ان لوگوں کے جو یہودی ہوں (یہ تو یہود کا قول ہے) یا ان لوگوں کے جو نصرانی ہوں (یہ نصاریٰ کا قول ہے حق تعالیٰ ان کی تردید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ) یہ (خالی) دل بہلانے کی باتیں ہیں (اور حقیقت کچھ بھی نہیں) آپ (ان سے یہ تو) کہیے کہ (اچھا) اپنی دلیل لاؤ اگر تم (اس دعوے میں) سچے ہو (سو وہ تو کیا دلیل لاویں گے کیونکہ کوئی دلیل ہے ہی نہیں اب ہم اس کے خلاف پہلے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ) ضرور دوسرے لوگ (بھی جنت میں) جاویں گے (پھر اس پر دلیل لاتے ہیں کہ ہمارا قانون جو باتفاق سماوی ملتوں کے ماننے والوں کے پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے یہ ہے کہ) جو کوئی شخص بھی اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکا دے (یعنی اعمال و عقائد میں فرمانبرداری اختیار کرے) اور (اس کے ساتھ) وہ مخلص بھی ہو (کہ فرمانبرداری دلی طور پر اختیار کی ہو محض مصلحت سے ظاہر داری نہ ہو) تو ایسے شخص کو اس (کی فرمانبرداری) کا عوض ملتا ہے پروردگار کے پاس پہنچ کر اور ایسے لوگوں پر (قیامت میں) نہ کوئی اندیشہ (ناک واقعہ پڑنے والا) ہے اور نہ ایسے لوگ (اس روز) مغموم ہونے والے ہیں (کیونکہ فرشتے ان کو بشارتیں سنا کر بےفکر کردیں گے) حاصل استدلال کا یہ ہوا کہ جب یہ قانون مسلم ہے تو اب صرف یہ دیکھ لو کہ یہ بات کس پر صادق آتی ہے ؟ سو ظاہر ہے کہ کسی حکم سابق کے منسوخ ہوجانے کے بعد اس پر عمل کرنے والا کسی بھی طور پر فرمانبردار نہیں کہلا سکتا لہذا یہود و نصاریٰ فرمانبردار نہ ہوئے بلکہ حکم ثانی پر عمل کرنا فرمانبرداری سمجھی جائے گی اور یہ شان مسلمانوں کی ہے کہ نبوت و شریعت محمدیہ کو قبول کرلیا چناچہ یہی جنت میں داخل ہونے والے شمار ہوئے، اور مخلصین کی قید سے منافقین نکل گئے (کیونکہ وہ بھی شرعاً کفار ہی میں داخل اور مستحق جہنم ہیں) اور (ایک بار کچھ یہودی اور کچھ نصرانی جمع ہو کر مذہبی مباحثہ کرنے لگے تو یہود تو اپنے عقیدہ کے موافق نصاریٰ کے دین کو باطل بتاتے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور انجیل کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے مگر نصاریٰ بھی ضد وتعصب میں آکر دین یہود کو بےاصل و باطل کہنے لگے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت اور توریت کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرنے لگے اللہ تعالیٰ اس قصہ کو نقل فرما کر بطور تردید فرماتے ہیں کہ) یہود کہنے لگے کہ نصاریٰ (کا مذہب) کسی بنیاد پر (قائم) نہیں (یعنی سرے سے غلط ہے) اور اسی طرح نصاریٰ کہنے لگے کہ یہود (کا مذہب) کسی بنیاد پر (قائم) نہیں (یعنی سرے سے غلط ہے) حالانکہ یہ سب (فریقین کے لوگ آسمانی) کتابیں بھی پڑھتے (پڑھاتے) ہیں (یعنی یہودی توریت کو اور عیسائی انجیل کو پڑہتے اور دیکھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں دونوں رسولوں اور دونوں کتابوں کی تصدیق موجود ہے جو کہ دونوں مذہبوں کی اصل بنیاد ہے گو منسوخ ہوجانے کی بنا پر قابل عمل نہ ہو یہ اور بات ہے) (اور اہل کتاب تو ایسے دعوے کرتے ہی تھے ان کی دیکھا دیکھی مشرکین کو بھی جوش آیا اور) اسی طرح سے یہ لوگ (بھی) جو کہ (محض) بےعلم ہیں ان (ہی اہل کتاب) کا سا قول دھرانے لگے (کہ ان یہود و نصاریٰ سب کا دین بےبنیاد ہے حق پر بس ہم ہی ہیں) سو (یہاں سب اپنی اپنی ہانک لیں) اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان (عملی) فیصلہ کردیں گے قیامت کے دن ان تمام مقدمات میں جن میں وہ باہم اختلاف کررہے تھے (اور وہ عملی فیصلہ یہ ہوگا کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل باطل کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا عملی فیصلہ کی قید اس لئے لگائی کہ قولی اور برہانی فیصلہ تو عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعہ دنیا میں بھی ہوچکا ہے) معارف و مسائل : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے پر رد کا ذکر فرما کر ان کی نادانی اور اس اختلاف کے مضر اثرات کا بیان پھر اصل حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ان تمام واقعات میں مسلمانوں کے لئے بڑی اہم ہدایات ہیں جن کا بیان آگے آتا ہے، یہود و نصاریٰ دونوں نے دین کی اصل حقیقت کو فرمواش کرکے مذہب کے نام پر ایک قومیت بنالی تھی اور ان میں سے ہر ایک اپنی ہی قوم کے جنتی اور مقبول ہونے اور اپنے سوا تمام اقوام عالم کے دوزخی اور گمراہ ہونے کا معتقد تھا، اس نامعقول اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرکین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ عیسائیت بھی بےبنیاد اور یہودیت بھی بےاصل حق و صحیح بس ہماری بت پرستی ہے، حق تعالیٰ نے ان دونوں قوموں کی جہالت و گمراہی کے متعلق فرمایا کہ یہ دونوں قومیں جنت میں جانے کے اصل سبب سے غافل ہیں محض مذہب کے نام کی قومیت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ مذہب یہود ہو یا نصاریٰ یا اسلام ان سب کی اصل روح دو چیزیں ہیں ؛ ایک یہ کہ بندہ دل وجان سے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کردے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا عقیدہ و مذہب سمجھے چاہے یہ کسی مذہب میں حاصل ہو حقیقت دین و مذہب کو فراموش کرکے یا پس پشت ڈال کر یہودی یا نصرانی قومیت کو اپنا مقصد بنا لینا دین و مذہب سے ناواقفیت اور گمراہی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ جنت میں جانے کے لئے صرف یہ بھی کافی نہیں کہ کوئی آدمی اپنے دل سے خدا کی فرمانبرداری کا قصد تو درست کرلے مگر اطاعت فرمانبرداری اور عبادت کے طریقے اپنے ذہن و خیال کے مطابق خود گھڑلے بلکہ یہ ضروری ہے کہ عبادت و اطاعت اور امتثال امر کے طریقے بھی وہی اختیار کرے جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے بتائے اور متعین کئے ہوں، پہلی بات بَلٰي ۤمَنْ اَسْلَمَ کے ذریعے اور دوسری وَھُوَ مُحْسِنٌ کے ذریعے واضح کی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ نجات اخروی اور دخول جنت کے لئے صرف اطاعت کافی نہیں بلکہ حسن عمل بھی ضروری ہے اور حسن عمل کا مصداق وہی تعلیم وطریقہ ہے جو قرآن اور سنت رسول خیر الانام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ہو۔ نسلی مسلمان ہو یا یہودی و نصرانی اللہ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے : جو شخص ان بنیادی اصولوں میں سے کسی بھی اصول کو چھوڑ دے خواہ یہودی ہو یا نصرانی یا مسلمان اور پھر محض نام کی قومیت کے زعم میں اپنے آپ کو جنت کا ٹھیکہ دار سمجھ لے تو یہ صرف اس کی خود فریبی ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بھی ان ناموں کا سہارا لے کر قریب نہیں ہوسکتا نہ مقبول بن سکتا ہے جب تک اس میں ایمان وعمل صالح کی روح موجود نہ ہو، پھر اصول ایمان تو ہر رسول اور ہر شریعت کے زمانے میں مشترک و یکساں رہے ہیں البتہ عمل صالح و مقبول کی شکلیں کچھ ادلتی بدلتی رہی ہیں تورات کے زمانے میں عمل صالح وہ سمجھا گیا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جو تورات کی تعلیم کے مطابق تھا انجیل کے دور میں عمل صالح یقیناً وہی عمل تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کی تعلیم کے مطابقت رکھتا تھا اور اب قرآن کے زمانے میں وہی عمل صالح کہے جانے کا مستحق ہوگا جو نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان اور ان کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق ہوگا، خلاصہ کلام یہ کہ یہود و نصاریٰ کے اس اختلاف کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ دونوں قومیں جہالت کی باتیں کر رہی ہیں دونوں میں سے کوئی بھی جنت کا ٹھیکہ دار نہیں اور نہ ہی دونوں کے مذہب بےبنیاد اور بےاصل ہیں بلکہ دونوں مذہبوں کی صحیح بنیاد موجود ہے غلط فہمی کا سبب اصلی یہ ہے کہ انہوں نے مذہب وملت کی اصل روح یعنی عقائد و اعمال اور نظریات کو چھوڑ کر نسلی یا وطنی بنیاد پر کسی قوم کو یہود ٹھہرا لیا اور کسی کو نصرانی سمجھ لیا، جو یہود کی نسل سے ہو یا یہود کے شہر میں بستا ہو یا مردم شماری میں اپنے آپ کو یہودی بتانا ہو اس کو یہود سمجھ لیا گیا اسی طرح نصرانیوں کی تشخیص و تعیین کی گئی حالانکہ اصول ایمان کو توڑ کر اور اعمال صالحہ سے منہ موڑ کر نہ کوئی یہودی رہتا ہے نہ نصرانی۔ قرآن کریم میں اس اختلاف اور اس فیصلہ کا ذکر مسلمانوں کو سنانے اور متنبہ کرنے کے لئے ہے کہ کہیں وہ بھی اس قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائیں کہ ہم تو پشتی مسلمان ہیں ہر دفتر و رجسڑ میں ہمارا نام مسلمان کے خانے میں درج ہے اور ہم زبان سے بھی اپنے کو مسلمان ہی کہتے ہیں اس لئے جنت کے نیز ان تمام انعامی وعدوں کے ہم ہی مستحق ہیں جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے مسلمانوں سے کئے گئے، اس فیصلہ سے ان پر واضح ہوجانا چاہے کہ کوئی شخص نہ محض دعوے سے حقیقی مسلمان بنتا ہے نہ کہیں مسلمان نام درج کرانے یا مسلمان کی صلب سے یا ان کے شہر میں پیدائش ہونے کی وجہ سے بلکہ مسلمان ہونے کے لئے اول اسلام ضروری ہے اور اسلام کے معنی ہی اپنے آپ کو سپرد کرنے اور سونپ دینے کے ہیں دوسرے احسان عمل یعنی سنت کے مطابق عمل کو درست کرنا، لیکن قرآن کریم کی اس تنبیہ کے باوجود بہت سے مسلمان اسی یہودی اور نصرانی غلطی کا شکار ہوگئے کہ خدا و رسول اور آخرت و قیامت سے بالکل غافل رہ کر اپنا نسلی مسلمان ہونا مسلمان ہونے کے لئے کافی سمجھنے لگے اور قرآن و حدیث میں جو وعدے فلاح دنیا وآخرت کے مسلمانوں سے کئے گئے ہیں اپنے آپ کو ان کا مستحق سمجھ کر ان کے پورے ہونے کا انتظار کرنے لگے اور جب وہ پورے ہوتے نظر نہیں آتے تو قرآن و حدیث کے وعدوں میں شک کرنے لگے اس کو نہیں دیکھتے کہ قرآن نے محض نسلی مسلمانوں سے کوئی وعدہ نہیں کیا جب تک وہ اپنے تمام ارادوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع نہ کردیں اور ان کے بتلائے ہوئے طریقوں پر عمل صالح کے پابند نہ ہوں یہی خلاصہ ہے آیت مذکورہ بَلٰيۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗٓ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْن کا آج کل پوری دنیا کے مسلمان طرح طرح کے مصائب وآفات کا شکار ہیں اس کو دیکھ کر بہت سے ناواقف لوگوں کو یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ شاید ان آفات و مصائب کا سبب ہمارا اسلام ہی ہے لیکن مذکورہ تحریر سے واضح ہوگیا کہ اس کا اصلی سبب ہمارا اسلام نہیں بلکہ ترک اسلام ہے کہ ہم نے اسلام کو صرف نام باقی رکھا ہے نہ اس کے عقائد ہمارے اندر ہیں نہ اخلاق، نہ اعمال، گویا، وضع میں ہم ہیں نصاریٰ تو تمدن میں ہنود پھر ہمیں کیا حق ہے کہ اسلام اور مسلم کے لئے کئے ہوئے وعدوں اور انعاموں کا ہم انتظار کریں، البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ بھی سہی نام تو اسلام کا لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام لیوا تو ہیں اور جو کفار کھلے طور پر اللہ و رسول کی مخالفت کرتے ہیں اسلام کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے وہ تو آج دنیا میں ہر طرح کی ترقی کررہے ہیں بڑی بڑی حکومتوں کے مالک بنے ہوئے ہیں دنیا کی صنعتوں اور تجارتوں کے ٹھیکہ دار بنے ہوئے ہیں اگر ہماری بدعملی کی ہمیں یہ سزا مل رہی ہے کہ ہم ہر جگہ پامال و پریشان ہیں تو کفار و فجار کو اس سے زیادہ سزا ملنی چاہیے لیکن اگر ذرا غور سے کام لیا جائے تو یہ شبہ خود بخود رفع ہوجائے گا، اول تو اس لئے کہ دوست اور دشمن کے ساتھ معاملہ یکساں نہیں ہوا کرتا دوست کو قدم قدم اور بات بات پر ٹوکا جاتا ہے اولاد اور شاگرد کو ذرا ذرا سی بات پر سزا دی جاتی ہے لیکن دشمن کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا اس کی ڈھیل دی جاتی ہے اور وقت آنے پر دفعۃ پکڑ لیا جاتا ہے، مسلمان جب تک ایمان واسلام کا نام لیتا ہے اور اللہ کی عظمت و محبت کا دم بھرتا ہے، وہ دوستوں کی فہرست میں داخل ہے اس کے برے اعمال کی سزا عموما دنیا ہی میں دے دیجاتی ہے تاکہ آخرت کا بار ہلکا ہوجائے بخلاف کافر کے کہ اس پر باغیوں اور دشمنوں کا قانون جاری ہے دنیا کی ہلکی ہلکی سزاؤں سے ان کا بار عذاب ہلکا نہیں کیا جاتا ان کو یک لخت عذاب میں پکڑا جائے گا، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد گرامی کا یہی مطلب ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے، دوسری اہم بات مسلمانوں کے تنزل اور پریشانی اور کفار کی ترقی و آرام کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کا جداگانہ خاصہ رکھا ہے ایک عمل کرنے سے دوسرے عمل کے خواص حاصل نہیں ہوسکتے مثلاً تجارت کا خاصہ ہے مال میں زیادتی دوا کا خاصہ ہے بدن کی صحت اب اگر کوئی شخص تجارت میں تو دن رات لگا رہے بیماری اور اس کے علاج کی طرف توجہ نہ دے تو محض تجارت کے سبب وہ بیماری سے نجات نہیں پاسکتا اسی طرح دوا دارو کا استعمال کرکے تجارت کا خاصہ یعنی مال کی زیادتی حاصل نہیں کرسکتا کفار کی دنیوی ترقی اور مال و دولت کی فراوانی ان کے کفر کا نتیجہ نہیں بلکہ کفار نے جب آخرت کی فکر چھوڑ دی اور پوری طرح دنیا کے مال و دولت اور عیش و آرام کی فکر میں لگ گئے تجارت، صنعت، زراعت اور حکومت وسیاست کے مفید راستوں کو اختیار کیا مضر طریقوں سے بچے تو دنیا میں ترقی حاصل کرلی اگر وہ بھی ہماری طرح صرف اپنے اپنے مذہب کا نام لے کر بیٹھ جاتے اور دنیوی ترقی کے لئے اس کے اصول کے مطابق جدوجہد نہ کرتے تو ان کا کفران کو مال و دولت یا حکومت کا مالک نہ بنا دیتا پھر ہم یہ کیسے سمجھ لیں کہ ہمارا سلام اور وہ بھی صرف نام کا ہماری ساری فتوحات کے دروازے کھول دے گا ؟ اسلام و ایمان اگر بالکل صحیح اصول پر بھی ہو تو اس کا اصلی خاصہ اور نتیجہ نجات آخرت اور جنت کی دائمی راحت ہے دنیا میں مال و دولت کی فراوانی یا عیش و آرام کی وسعت اس کے نتیجہ میں حاصل ہونا ضروری نہیں جب تک اس کے لئے اس کے مناسب جدوجہد نہ کی جائے، اور یہ بات تجربہ سے ثابت ہے کہ جہاں کہیں اور جب کوئی مسلمان تجارت وصنعت، حکومت وسیاست کے اصول صحیحہ کو سیکھ کر ان پر عمل پیرا ہوجاتا ہے تو وہ بھی ان دنیوی ثمرات و نتائج سے محروم نہیں رہتا جو کسی کافر کو حاصل ہورہے ہیں، اس سے واضح ہوا کہ دنیا میں ہمارا افلاس و احتیاج اور مصائب وآفات ہمارے اسلام کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طرف اسلامی اخلاق و اعمال چھوڑنے کا اور دوسری طرف ان تمام کاموں سے منہ موڑنے کا نتیجہ ہے جن کے عمل میں لانے سے مال و دولت میں زیادتی ہوا کرتی ہے، افسوس ہے کہ ہمیں جب یورپ والوں کے ساتھ اختلاط کا اتفاق پیش آیا تو ہم نے ان سے صرف ان کا کفر اور آخرت سے غفلت اور بےحیائی وبداخلاقی تو سب سیکھ لی لیکن ان کے وہ اعمال نہ سیکھے جن کی وجہ سے وہ دنیا میں کامیاب نظر آتے ہیں جس مقصد کے لئے کھڑے ہوں اس کے پیچھے ان تھک کوشش معاملہ کی سچائی بات کی سچائی اور دنیا میں اثر رسوخ حاصل کرنے کے نئے نئے طریقے جو درحقیقت اسلام ہی کی اصلی تعلیمات ہیں ہم نے ان کو دیکھ کر بھی اس کی نقل اتارنے کی کوشش نہ کی تو یہ قصور ہمارے اسلام کا ہے یا ہمارا اپنا قصور ہے، الغرض قرآن کی ان آیات نے واضح کردیا کہ محض نسلی طور پر اسلام کا نام رکھ لینا کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتا جب تک ایمان اور عمل صالح کو مکمل طور پر اختیار نہ کیا جائے،

    Mufti Muhammad Shafi (intro)

    نام : معارف القرآن
    مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع
    تفسیر کا تعارف :
    معارف القرآن جو پہلے ریڈیو پاکستان سے نشر کی گئی پھر بعد میں کتابی صورت میں مرتب ہوئی، اس تفسیر کے لیے قلم اٹھانے کی وجہ مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) نے اپنے مقدمہ میں خود تحریر فرمائی ہے، چناچہ لکھتے ہیں :
    " ریڈیو پاکستان کے ذمہ دار حضرات نے مجھ سے درس قرآن ریڈیو پاکستان سے نشر کرنے کی فرمائش کی؛ لیکن میں چند اعذار کی بناء پر قبول نہ کرسکا، ان کے مزید اصرار کی وجہ سے انھیں کی ایک دوسری تجویز کو بنام خدا منظور کرلیا، وہ تجویز یہی معارف القرآن کی کہ ہفتہ میں ایک روز جمعہ کے دن تفسیر نشر ہوا کرے اور اس میں پورے قرآن کی تفسیر پیش نظر نہ ہو بلکہ عام مسلمانوں کے موجودہ ضرورت کے پیش نظر خاص خاص آیات کا انتخاب کرکے ان کی تفسیر اور اس سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہوا کرے "۔
    پھر آگے لکھتے ہیں :
    " اطراف دنیا سے مسلمانوں کے خطوط اور آنے جانے والوں سے یہ معلوم ہوا کہ عام مسلمان اور خصوصاً تعلیم یافتہ حضرات اس درس سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں؛ لیکن اس سلسلہ کی دس سالہ پابندی نے ایک طرف تو ایک ضخیم جلد معارف القرآن کی غیرارادی طور پر تیار کرادی، دوسری طرف ریڈیو پر سننے والے حضرات کی طرف سے بیشمار تقاضے آنے شروع ہوئے کہ اس کو کتابی صورت میں شائع کیا جائے "۔
    لوگوں کی اس قدر دلچسپی اور ان کے تقاضے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک اردو زبان میں جتنی تفسیریں منظرعام پر آئیں تھیں، ان میں یا تو علمی اور تحقیقی موشگافیاں زیادہ تھیں جن سے عوام پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتی تھی، دوسرے یہ کہ اردو زبان کے اسلوب میں پہلے کے مقابلہ کافی تبدیلی آچکی تھی، اس لیے بھی پہلے کی اردو تفاسیر کا سمجھنا عام لوگوں کے لیے دشوار تھا؛ نیزبعض تفاسیر سرسری اور بہت مختصر تھیں جن سے پڑھنے والوں کی پیاس نہیں بجھ پاتی تھی۔
    تفسیر معارف القرآن کی چند خصوصیات یہ ہیں :
    چونکہ مصنف موصوف کے پیش نظر یہ تھا کہ عوام جو علمی اصلاحات سے واقف اور دقیق مضامین کے متحمل نہیں ہیں وہ بھی قرآن کریم کو اپنے حوصلے کے مطابق سمجھ سکیں، اس لیے تفسیر کو لکھتے ہوئے اس کی پوری رعایت کی گئی ہے کہ فنی اصطلاحات، دقیق بحثیں اور غیر معروف ومشکل الفاظ سے گریز کیا جائے، تفسیر میں سلف صالحین کی تفسیروں پر اعتماد کیا گیا ہے اور بےسندباتوں سے احتراز کیا گیا ہے؛ چناچہ جگہ بہ جگہ صحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال اور متقدمین کی تفسیری کتب سے استفادہ کرکے ان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
    لطائف و معارف کے ضمن میں متاخرین میں سے مستند مفسرین کے مضامین بھی لیے گئے ہیں، خصوصاً ایسے مضامین جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت ومحبت کو بڑھاتے ہوں اور ان کی وجہ سے اعمال صالحہ انجام دینے کی تحریک ہوتی ہو، متن قرآن کے ترجمہ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) اور حضرت شیخ الہند قدس سرہ کے ترجموں پر اعتماد کیا گیا ہے، ترجمہ کے بعد مکمل تفسیر و تشریح سے پہلے خلاصہ تفسیر لکھ دیا گیا ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی تفسیر بیان القرآن سے ماخوذ ہے، اسے آیات پر مختصر نوٹ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مشغول آدمی اتنا ہی دیکھ لے تو فہم قرآن کے لیے ایک حد تک کافی ہوجائے، آخر میں آیات مندرجہ سے متعلق احکام و مسائل لکھے گئے ہیں، اس میں اس کا التزام کیا گیا ہے کہ صرف وہ احکام و مسائل لئے جائیں جو کسی نہ کسی طرح الفاظ قرآن کے تحت آتے ہوں، احکام و مسائل کا بڑا حصہ تفسیر قرطبی، احکام القرآن للجصاص، احکام القرآن لابن العربی، تفسیرات احمدیہ، تفسیر محیط، روح المعانی، روح البیان اور بیان القرآن وغیرہ سے لیا گیا ہے، جن کے حوالہ جات بھی مذکور ہیں، تاہم نئے عہد کے بعض نئے مسائل کا بھی ذکر ہے، قرآن وحدیث اور مجتہدین کرام کے اصول کو پیش نظر رکھا گیا ہے اور جس طرح مسائل واحکام میں متقدمین نے اپنے اپنے عہد کے فرقوں اور اس زمانہ کے مسائل کو اہمیت دی ہے، مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے۔

    مصنف کا تعارف :
    مفتی محمد شفیع صاحب (رح) ۔ مصنف معار ف القرآن
    ولادت : 25 جنوری 1897، دیوبند (موجودہ یو۔ پی) بھارت
    وفات : 6 اکتوبر 1976 ۔ کراچی پاکستان
    مکمل تعلیم دیوبند میں حاصل کی
    خدمات :
    مفتی صاحب برصغیر پاک وہند کے متاز سنی حنفی دیوبندی عالم تھے۔
    قیام پاکستان سے پہلے دار العلوم دیوبند میں مدرس رہے۔
    قیام پاکستان کے بعد پاکستان کراچی تشریف لے آئے اور ایک عظیم الشان مدرسہ دارالعلوم کراچی کے نام سے قائم کیا
    مفتی صاحب کی تقریبا 100 سے زائد تصانیف ہیں۔ جن میں سب سے مشہور معارف القرآن ہے ۔ جو آپ کی وفات سے چار سال پہلے ، آپ ریڈیو پاکستان پر ہفتہ وار قرآن کے لیکچرز کی صورت میں نشر ہونا شروع ہوا ۔ بعد ازاں اسے کتابی شکل دی گئی۔

    Mufradat ul Quran
    by Imam Raghib Isfahani

    وَقَالُوْا لَنْ يَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ كَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى۝ ٠ ۭ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ۝ ٠ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝ ١١١ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ نَّصَارَى وَالنَّصَارَى قيل : سُمُّوا بذلک لقوله : كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] ، وقیل : سُمُّوا بذلک انتسابا إلى قرية يقال لها : نَصْرَانَةُ ، فيقال : نَصْرَانِيٌّ ، وجمْعُه نَصَارَى، قال : وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاری الآية [ البقرة/ 113] ، ونُصِرَ أرضُ بني فلان . أي : مُطِرَ «1» ، وذلک أنَّ المطَرَ هو نصرةُ الأرضِ ، ونَصَرْتُ فلاناً : أعطیتُه، إمّا مُسْتعارٌ من نَصْرِ الأرض، أو من العَوْن . اور بعض کے نزدیک عیسائیوں کو بھی نصاری اس لئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے نحن انصار اللہ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ كُونُوا أَنْصارَ اللَّهِ كَما قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوارِيِّينَ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) بن مر یم نے حواریوں سے کہا بھلا کون ہے جو خدا کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں تو حوراریوں نے کہا ہم خدا کے مددگار ہیں ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ یہ نصرانی کی جمع ہے جو نصران ( قریہ کا نام ) کی طرف منسوب ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصاریالآية [ البقرة/ 113] یہود کہتے ہیں کہ عیسائی رستے پر نہیں ۔ نصر ارض بنی فلان کے معنی بارش بر سنے کے ہیں کیونکہ بارش سے بھی زمین کی مدد ہوتی ہے اور نصرت فلانا جس کے معنی کسی کو کچھ دینے کے ہیں یہ یا تو نصر الارض سے مشتق ہے اور یا نصر بمعنی عون سے ۔ تَّمَنِّي : تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] والأُمْنِيَّةُ : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] . ۔ التمنی کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ الامنیۃ کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔ هيت هَيْتَ : قریب من هلمّ ، وقرئ : هَيْتَ لَكَ : أي : تهيّأت لك، ويقال : هَيْتَ به وتَهَيَّتْ : إذا قالت : هَيْتَ لك . قال اللہ تعالی: وَقالَتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف/ 23] . يقال : هَاتِ ، وهَاتِيَا، وهَاتُوا . قال تعالی: قُلْ هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة/ 111] قال الفرّاء : ليس في کلامهم هاتیت، وإنما ذلک في ألسن الحیرةقال : ولا يقال لا تهات . وقال الخلیل : المُهَاتَاةُ والهتاءُ مصدر هات . ( ھ ی ت ) ھیت ( ھ ی ت ) ھیت اور ھلم کے قریب قریب ایک ہی معنی ہیں اور آیت وقالتْ هَيْتَ لَكَ [يوسف/ 23] کہنے لگی ( یوسف ) چلاآؤ ۔ میں ایک قرات ھیت لک بھی ہے جس کے معنی تھیات لک کے ہیں ییعنی میں تیرے لئے تیار ہوں اور ھیت بہ وتھیت کے معنی ھیت لک کہنے کے ہیں ھات ( اسم فعل ) لاؤ تثنیہ اور جمع کے لئے ھائتا وھا تو ا ۔ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ قُلْ هاتُوا بُرْهانَكُمْ [ البقرة/ 111]( اے پیغمبر ) ان سے تم کہدو کہ ۔۔۔۔۔ دلیل پیش کرو ۔ افتراء کا کہنا ہے کہ کلام عرب میں ھاتیت مستعمل نہیں ہے یہ صرف اہل حیرہ کی لغت ہے اور اس سے لالھات ( فعل نہیں ) استعمال نہیں ہوتا ۔ خلیل نے کہا ہے کہ المھاتاہ والھتاء ( مفاعلہ سے ) سات صیغہ امر ہے ۔ ھیھات یہ کلمہ کسی چیز کے بعید ازقیاس ہو نیکو کو بتانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس میں ھیھات ھیھات اور ھیھاتا تین لغت ہیں اور اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ هَيْهاتَ هَيْهاتَ لِما تُوعَدُونَ [ المؤمنون/ 36] جس بات کا تم وعدہ کیا جاتا ہے ( بہت ) لبیدا اور ( بہت ) بعید ہے ۔ زجاج نے ھیھات کے معنی البعد کئے ہیں دوسرے اہل لغت نے کہا ہے کہ زجاج کو ( لما ) کے لام کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس کی اصل بعد الامر وا الوعد لما توعدون ہے اور اس میں ایک لغت ھیھات بھی ہے ۔ الفسوی نے کہا ہے کہ ھیھات کسرہ تا کے ساتھ ھیھات ( بفتح تاء ) کی جمع ہے ۔ بره البُرْهَان : بيان للحجة، وهو فعلان مثل : الرّجحان والثنیان، وقال بعضهم : هو مصدر بَرِهَ يَبْرَهُ : إذا ابیضّ ، ورجل أَبْرَهُ وامرأة بَرْهَاءُ ، وقوم بُرْهٌ ، وبَرَهْرَهَة «1» : شابة بيضاء . والبُرْهَة : مدة من الزمان، فالبُرْهَان أوكد الأدلّة، وهو الذي يقتضي الصدق أبدا لا محالة، وذلک أنّ الأدلة خمسة أضرب : - دلالة تقتضي الصدق أبدا . - ودلالة تقتضي الکذب أبدا . - ودلالة إلى الصدق أقرب . - ودلالة إلى الکذب أقرب . - ودلالة هي إليهما سواء . قال تعالی: قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] ، قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] ، قَدْ جاءَكُمْ بُرْهانٌ مِنْ رَبِّكُمْ [ النساء/ 174] . ( ب ر ہ ) البرھان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں اور یہ ( رحجان وثنیان کی طرح فعلان کے وزن پر ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ برہ یبرہ کا مصدر ہے جس کے معنی سفید اور چمکنے کے ہیں صفت ابرہ مونث برھاء ج برۃ اور نوجوان سپید رنگ حسینہ کو برھۃ کہا جاتا ہے البرھۃ وقت کا کچھ حصہ لیکن برھان دلیل قاطع کو کہتے ہیں جو تمام دلائل سے زدر دار ہو اور ہر حال میں ہمیشہ سچی ہو اس لئے کہ دلیل کی پانچ قسمیں ہیں ۔ ( 1 ) وہ جو شخص صدق کی مقتضی ہو ( 2 ) وہ جو ہمیشہ کذب کی مقتضی ہو ۔ ( 3) وہ جو اقرب الی الصدق ہو ( 4 ) جو کذب کے زیادہ قریب ہو ( 5 ) وہ جو اقتضاء صدق وکذب میں مساوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صادِقِينَ [ البقرة/ 111] اے پیغمبر ان سے ) کہدو کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔ قُلْ : هاتُوا بُرْهانَكُمْ هذا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ [ الأنبیاء/ 24] کہو کہ اس بات پر ) اپنی دلیل پیش کرویہ ( میری اور ) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

    Imam Raghib Isfahani (intro)

    نام : مفردات القرآن فی غریب القرآن
    مصنف : امام راغب اصفہانی
    اردو مترجم : مولانا محمد عبدہ فیروز پوری
    مطبوعہ : اسلامی اکیڈیمی، الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور
    کتاب اور مصنف کا تعارف :
    مفردات القرآن ابوالقاسم حسن بن محمد المعروف علامہ راغب اصفہانی (متوفی 502 ھ - 1108 ء) کی تصنیف ہے اس کا پورا نام " المفردات فی تحقیق مواد لغات العرب المتعلقہ بالقرآن " ہے جبکہ مطبوعہ نسخوں پر " المفردات فی غریب القرآن " کا عنوان مرقوم ہے اردو میں اسے " مفردات القرآن " سے شہرت ہے۔
    مفردات القرآن کے نام سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں لیکن جو شہرت و دوام اس کتاب کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔
    یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق ہے اس میں ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں اول حرف کی رعایت کی گئی ہے اور قرآن میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کی لغوی تشریح کی گئی ہے ۔
    طریق بیان بڑا فلسفیانہ ہے جس میں پہلے ہر مادہ کے جوہری معنی متعین کئے جاتے ہیں پھر انہیں قرآنی آیات پر منطبق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شرح الفاظ کیلئے یہ طریقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس سے صحیح معنی تک رسائی ممکن ہوتی ہے اور تمام اشتباہ دور ہوجاتے ہیں۔
    بہت سے مصنفین اور آئمہ لغت نے اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔
    مصنف کا تعارف :
    یہ کتاب امام راغب اصفہانی (رح) کی تصنیف ہے، امام راغب پانچویں اور چھٹی صدی کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔۔
    ان کا پورا نام ابو القاسم حسین بن محمد بن مفضل بن محمد ہے اور راغب اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں،
    امام راغب علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے، مؤلفِ جامع علوم و فنون ہونے کے ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے، اور ادب و فلسفہ ، جملہ علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور انہوں نے قرآن پاک کی ایک بہت بڑی تفسیر بھی لکھی ہے۔
    علامہ ذہبی (رح) نے ان کا تذکرہ “ طبقات المفسرین ” میں کیا ہے اور امام سیوطی (رح) ان کو لغت و نحو کے ائمہ میں شمار کرتے ہیں، مختلف تذکروں میں حکیم، ادیب ، مفسر، کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ہمہ فنی امام تھے اور بیک تفسیر و لغت کے امام ہونے کے ساتھ بہت بڑے حکیم اور صوفی تھے۔
    امام راغب کی وفات 502 ہجری میں ہوئی۔
    تالیفات :
    امام راغب کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں :
    1 ۔ محاضرات الادباء :
    2 ۔ حل متشابہات القرآن
    3 ۔ حل متشابہات القرآن
    4 ۔ الذریعہ الی مکارم الشریعہ
    5 ۔ درۃ التاویل فی غرۃ التنزیل
    6 ۔ تحقیق البیان فی تاویل القرآن
    7 ۔ افانین البلاغۃ۔
    8 ۔ کتاب الایمان والکفر
    9 ۔ تفصیل النشاتین :
    10 ۔ المفردات فی غریب القرآن
    11 ۔ کتاب المعانی الاکبر
    12 ۔ کتاب احتجاج القراء۔
    مترجم کا تعارف۔
    امام راغب افہانی کی مفردات القرآن اصل کتاب عربی میں ہے ۔ جبکہ ایزی قرآن و حدیث میں اس کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔
    مترجم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبدہٗ فیروز پوری ہیں۔ جو عبدہ الفلاح کے نام سے بھی مشہور ہیں آپ جولائی 1917 کو موضع وٹواں ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ وٹو برادری سے تعلق تھا۔ ابتدائی تعلیم جس میں سکول اور دینیات اپنے گاؤں میں حاصل کی۔ پھر بڈھیمال میں پڑھتے رہے۔ اس کے بعد دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی کی معروف مسجد فتح پوری میں تحصیل علم کیا۔ اور آخر میں حضرت حافظ محمد گوندلوی مرحوم سے گوجرانوالہ میں بخاری شریف پڑھی۔ فراغت کے بعد تدریس کے میدان میں آگے۔ آپ نے گوجرانوالہ ، اوڈانوالہ ، اوکاڑہ ، فیصل آباد میں تدریسی فرائض سر انجام دیئے۔ خصوصاًجامعہ سلفہ میں بڑی کتب کے علاوہ بخاری شریف پڑھاتے تھے۔ آپ کو تفہیم کا ملکہ حاصل تھا۔ مختصر مگر جامع گفتگو کرتے۔ اور تدریس کا حق ادا کردیتے۔ مشکل سے مشکل بحث کو آسانی کے ساتھ سمجھا دیتے۔ تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا عمدہ ذوق پایا تھا۔ آپ نے کئی یادگار تصا نیف چھوڑی ہیں۔ جن میں معروف ترین اشرف الحواشی ہے۔ جو کہ قرآن حکیم پر مختصر تفسیر ہے۔ آپ دو مرتبہ جامعہ سلفیہ میں بطور شیخ الحدیث رہے ہیں۔ دوسری مرتبہ جب آپ اس منصب پر فائز ہوئے۔ تو آپ گلے کے مریض بن گئے۔ زیادہ بلند آواز میں بات نہ کرسکتے تھے۔ جس سے طلبہ آپ کی گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ مائیک کا ا نتظام کرنے کے باوجود بات نہ بنی۔ تو پھر خود ہی مستعفی ہوگئے۔ لیکن جامعہ کی انتظامیہ نے آپ کا وظیفہ برابر جاری رکھا ۔ حاجی آباد فیصل آباد میں رحلت فرمائی۔ جامعہ سلفیہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ اور گاؤں نز د تاندلیانوالہ میں سپرد خاک کئے گئے۔

    Ahkam ul Quran
    by Amam Abubakr Al Jassas

    Amam Abubakr Al Jassas (intro)

    احکام القرآن للجصاص
    نام و کنیت
    نام احمد بن على الرازى اوركنيت الجصاص: ابوبكراحمد بن على الرازى الجصاص سے مشہور ہیں۔
    ولاد ت
    امام جصاص کی ولادت رے شہر میں ہو ئی اسی نسبت سے رازى کہلاتے ہیں ولادت کا سال 305ھ بمطابق 917ء بیس سال کی عمر میں بغداد منتقل ہو گئے۔
    علمی سفر
    ابوبکر جصاص نے بہت سے علمی سفر کئےاور اکابر علماء سے علم حاصل کیابالخصوص علمائے احناف سے بہت استفادہ کیا اہواز نیشاپورکے سفر کئے اور اس علمی سفر کی انتہاء بغداد میں ہوئی امام کرخی کے پاس نیشا پور میں تھے کہ ان کا انتقال ہوا۔
    شيوخ
    ان کے مشائخ میں
    ابو الحسن الكرخی جن سے زہد و ورع حاصل کیا
    ابو سہل الزجاج
    عبد الباقی بن قانع حديث کا علم حاصل کیا
    ابوحاتم الرازی
    ابوسعيد الدارمی عثمان بن سعيد الدارمي صاحب المسند
    تصنیفات
    شرح الجامع الكبير محمد بن الحسن الشيبانی
    شرح الجامع الصغير محمد بن الحسن الشيبانى
    شرح المناسك لمحمد بن الحسن الشيبانى
    شرح مختصر الفقہ للطحاوی
    شرح آثار الطحاوى
    مختصر اختلاف الفقہاء طحاوى
    شرح ادب القاضی خصاف
    شرح مختصر الكرخی
    شرح الاسماء الحسنى
    جوابات المسائل
    احكام القرآن
    الفصول فی الاصول
    وفات
    انکی وفات 370ھ بمطابق 980ء میں بغداد میں ہوئ

    Tafseer Ibn e Abbas
    by by Ibn e Abbas

    (١١١) یہودی اور اسی طرح نصاری (عیسائی) اپنے خیال میں کہتے ہیں کہ جو یہودیت (یانصرانیت) پر مرے گا وہ ہی جنت میں داخل ہوگا یہ تو صرف ان کی خوابی تمنائیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں انہوں نے قائم کر رکھی ہیں، جس کا ان کی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان دونوں جماعتوں سے فرما دیجئے کہ اگر اپنی افسانہ پردازی میں سچے ہو تو اپنی کتابوں سے ثبوت لاؤ مگر حقیقت تمہاری باتوں کے مطابق نہیں۔

    by Ibn e Abbas (intro)

    تفسیر ابن عباس (تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس)
    تعارف کتاب و امتیازی خصوصیات :
    یہ تفسیر در اصل ایک عربی تفسیر " تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس " کا اردو ترجمہ ہے :
    اصل عربی تفسیر کے مصنف ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن بن ابراہیم نجد الدین الشیرازی الشافعی ہیں۔ اور یہ تفسیر تفسیر قرآن سے متعلق حضرت ابن عباس (رض) کی روایات کا مجموعہ ہے :
    ہمارے سوفٹ ویئر " ایزی قرآن و حدیث " میں اس تفسیر کا اردو ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ اس تفسیر کے اردو ترجمہ کا کام پر وفسیر حافظ محمد سعید احمد عاطف نے سر انجام دیا ہے۔ اور ہمارے سوفٹ ویئر میں جو نسخہ شامل کیا گیا ہے وہ " مکی دار الکتب " 37 مزنگ روڈ بک سٹریٹ، لاہور، پاکستان سے طبع شدہ ہے۔
    ذیل میں ، اس کتاب کا مختصر تعارف، پیش ہے :
    عربی تفسیر " تنویر المقب اس "
    اس تفسیر " تنویر المقب اس " کے حوالے سے اسلاف کی آراء مختلف فیہ ہیں۔ اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث مثلا : مسند احمد بن حنبل، مسند ابی داود الطیالسی، مسند الشافعی، مسند الحمیدی، معجم طبرانی، المنتقی لابن جارود، سنن دارمی، سنن الدارقطنی میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ صحابہ کے اقوال و آثار بھی ہیں۔ لغتِ عرب، تاریخ عرب، ایام العرب سے استشہاد و استناد بھی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کی روایات سے مزین ہیں۔ ان تمام شواہد اور قرائن کی موجودگی میں اس مجموعہ روایات ابن عباس سے بےاعتنائی، قرینِ انصاف نہیں۔ پھر یہ تفسیر ایک طویل عرصے سے ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف حصوں میں زیور طبع سے آراستہ ہورہی ہے اور اہل علم اس سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اور ہمارے پاس ابن عباس (رض) جیسے مفسر اعظم کی تفسیری آراء کا اس کے علاوہ کوئی اور مجموعہ نہیں ہے۔ اس تفسیر کا ایک قلمی نسخہ پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود ہے۔ یہ تفسیر 1314 ھ کو امام سیوطی کی تفسیر در منثور کے حواشی پر مصر سے شائع ہوئی اور مستقل طور پر 1316 ھ کو مصر سے چھپی اور برصغیر میں کئی مرتبہ شائع ہوئی، 1285 ھ کو شاہ ولی اللہ کے ترجمہ قرآن کے ساتھ اور پھر شاہ رفیع الدین کے اردو ترجمہ کے حاشیہ پر بھی شائع ہوئی ۔ اردو ترجمہ پہلی بار 1926 ء میں آگرہ سے شائع ہوا اور 1970 میں مولانا عابد الرحمن صدیقی کے ترجمہ کو کلام کمپنی کراچی نے شائع کیا۔
    تعارف مفسر :
    نام و نسب
    آپ کا نام عبداللہ، ابوالعباس کنیت تھا۔ آپ کے والد کا نام حضرت عباس (رض) اور والدہ کا نام ام‏الفضل لبابہ (رض) عنہا تھا۔ آپ کا شجرہِ نسب یہ ہے۔
    عبداللہ بن العباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
    آپ کے والد حضرت عباس (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سگے چچا تھے۔ اس طرح آپ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ابن عم تھے۔ آپ (رض) ام المومنین حضرت میمونہ (رض) کے خواہرزادہ تھے کیونکہ آپ (رض) کی والدہ ام الفضل (رض) اور حضرت میمونہ (رض) حقیقی بہنیں تھیں۔
    پیدائش
    حضرت عبداللہ ابن عباس کی پیدائش ہجرت سے 3 برس قبل شعب ابی طالب میں محصوریت کے دوران ہوئی تھی۔ آپ کی پیدائش کے بعد حضرت عباس (رض) آپ کے بارگاہِ رسالت میں لے کر آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال کر آپ کے حق میں دعا فرمائی۔
    قبولِ اسلام
    آپ کے والد محترم حضرت عباس (رض) نے اگرچہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا، لیکن آپ کی والدہ حضرت ام الفضل (رض) نے ابتدا میں ہی داعی توحید کو لبیک کہا تھا۔ اس لئے آپ کی پرورش توحید کے سائے میں ہوئی۔
    ہجرت
    حضرت عباس (رض) 8 ہجری میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے۔ اس وقت آپ کی عمر تقریباً 11 سال تھی۔ آپ اپنے والد کے حکم سے بیشتر اوقات بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتے تھے۔
    عہد طفویلیت میں مصاحبتِ رسول
    آپ کی مصاحبت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو زمانہ پایا، دراصل وہ آپ کے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ تاہم آپ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت میں اکثر رہتے۔ ام المومینین حضرت میمونہ (رض) آپ کی خالہ تھی اور آپ سے بہت شفقت رکھتیں تھیں اس لیے آپ اکثر انے خدمت میں حاضر رہتے تھے اور کئی دفع رات میں انکے گھر پر ہی سو جاتے تھے۔ اس طرح انکو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہترین موقع میسر تھا۔ آپ ایسے ہی ایک رات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
    ” ایک مرتبہ میں اپنی خالہ کے پاس سو رہا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر استراحت فرما ہوئے، پھر کچھ رات باقی تھی کے آپ بیدار ہوئے اور مشکیزہ کے پانی سے وضو کر کے نماز پڑھنے لگے میں بھی اٹھ کر بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے داہنی طوف کھڑا کرلیا۔ “
    آپ کے حق میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا
    اسی طرح ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے بیدار ہوئے تو آپ (رض) نے وضو کے لئے پنی لا کر رکھ دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضو سے فراخت کے بعد پوچھا کے پانی کون لایا تھا۔ حضرت میمونہ (رض) نے حضرت عبداللہ بن عباس کا نام لیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہو کر یہ دعا دی۔
    ” اللهم فقهه في الدين وعلمه التأويل‎
    یعنی اے اللہ اس کو مذہب کا فقیہ بنا اور تاویل کا طریقہ سکھا “
    وفات : آپ (رض) کی وفات : 68 ہجری بمطابق 687 ء میں ہوئی۔
    تعارف مصنف :
    1. اس تفسیری مجموعہ کے مؤلف و مرتب کا مکمل نام ابو الطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجد الدین بن الشیرازی الشافعی ہے۔
    پیدائش : آپ شیراز شہر کے قریب ایک گاؤں " کا زشرون " میں 749 ہجری بمطابق 1339 ء کو پیدا ہوئے۔
    ابتدائی تعلیم :
    آپ کی تعلیم کا علاقہ اور اساتذہ کا دائرہ خاصا وسیع ہے۔ ابتداء شیراز ہی سے تعلیم حاصل بعد ازیں بغداد کا رخ کیا جو اس وقت علم و فن کا مرکز تھا۔ ازاں بعد امام ابن قیم اور امام السبکی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر بیت المقدس تشریف لے گئے اور تقریبا دس سال تک تعلیم و تعلم کا یہ سلسلہ بیت المقدس میں قریباً دس سال تک چلتا رہا۔ اس کے علاوہ آپ نے حرمین شریفین، ترکی، قاہری اور ہندوستان کے شیوخ و اکابر سے بھی علم حاصل کیا۔
    مقام ومرتبہ : آپ اپنے وقت کے جلیل القدر، مفسر، محدث، ماہر لغت اور اعلی پائے کے ادیب تھے۔ شخصی اعتبار سے بڑے غیرت مند، خود دار اور متقی تھے۔ زندگی کا انداز سادہ و پروقار تھا۔ ۔
    آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں :
    تنویر المقب اس من تفسیر ابن عباس
    بصائر ذوالتمیز فی لطائف الکتاب العزیز کے نام سے آپ نے قرآن مجید کی چھ جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی۔ یہ تفسیر قاہرہ و بیرت سے بار ہا چھپ چکی ہے۔
    علامہ زمخشری کی کشات کے خطبہ کی ایک مستقل شرح لکھی۔
    سیرت النبی پر مختصر کتاب سفر السعادۃ یا الصراط المستقیم کے نام سے لکھی۔
    بخاری شریف کی ایک شرح بھی لکھی۔
    آپ کی اہم اور مشہور ترین تالیف، القاموس، ہے۔ یہ جامع ترین عربی لغات میں شمار ہوتی ہے۔
    البلغہ فی تاریخ ائمۃ اللغۃ۔
    کتاب تحبیر الموشین فیما نقال بالسین والشین۔

    Bayan ul Quran
    by Dr Israr Ahmed

    آیت ١١١ (وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ الاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ط) جب یہ نئی امت مسلمہ تشکیل پا رہی تھی تو یہودی اور نصرانی ‘ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں جمع ہوگئے۔ انہوں نے مل کر یہ کہنا شروع کیا کہ جنت میں کوئی ہرگز نہیں داخل ہوگا سوائے اس کے جو یا تو یہودی ہو یا نصرانی ہو۔ اس طرح کی مذہبی جتھے بندیاں ہمارے ہاں بھی بن جاتی ہیں۔ مثلاً اہل حدیث کے مقابلے میں بریلوی اور دیوبندی جمع ہوجائیں گے ‘ اگرچہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیر اپنی جگہ ہے۔ جب ایک مشترکہ دشمن نظرآتا ہے تو پھر وہ لوگ جن کے اپنے اندر بڑے اختلافات ہوتے ہیں وہ بھی ایک متحدہّ محاذ بنا لیتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے اس مشترکہ بیان کے جواب میں فرمایا : (تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ ط) یہ ان کی خواہشات ہیں ‘ من گھڑت خیالات ہیں ‘ خوش نما آرزوئیں (wishful thinkings) ہیں۔ (قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ۔ کسی آسمانی کتاب سے دلیل لاؤ۔ کہیں تورات میں لکھا ہو یا انجیل میں لکھا ہو تو ہمیں دکھا دو ! اب یہاں پر پھر ایک عالمگیر صداقت (universal truth) بیان ہو رہی ہے :

    Dr Israr Ahmed (intro)

    1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
    ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
    آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
    تعلیمی پس منظر
    قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
    سیاسی زندگی[ترمیم ]
    دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
    بحیثیت اسلامی اسکالر
    تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے ‍قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
    وفات
    ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

    Tafheem ul Quran
    by Abdul Ala Maududi

    112. That is, all this is merely wishful thinking, even though they express thoughts as if they were really going to happen.

    سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :112 یعنی دراصل یہ ہیں تو محض ان کے دل کی خواہشیں اور آرزوئیں ، مگر وہ انہیں بیان اس طرح کر رہے ہیں کہ گویا فی الواقع یہی کچھ ہونے والا ہے ۔

    Abdul Ala Maududi (intro)

    1. ترجمہ و تفسیر تفہیم القرآن
    تفہیم القرآن
    یہ مشہور زمانہ تفسیر تحریک اسلامی کے قائد وموسس مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے جو پہلی بار ١٩٤٩ ء میں اشاعت پذیر ہوئی، یہ تفسیر چھ ضخیم جلدوں میں ہے اور ہندوپاک میں اس کے درجنوں ایڈیشن نکل چکے ہیں، اس تفسیر کے لکھنے کے محرکات کیا ہوئے ؟ ان کو خود مصنف نے اس طرح لکھا ہے : " اس کام میں میرے پیش نظر علماء اور محققین کی ضروریات نہیں ہیں اور نہ ان لوگوں کی ضروریات ہیں جو عربی زبان اور علوم دینیہ کی تحصیل سے فارغ ہونے کے بعد قرآن مجید کا گہرا تحقیقی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے حضرات کی پیاس بجھانے کے لیے بہت کچھ سامان پہلے سے موجود ہے ، میں جن لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں وہ اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، جو عربی سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں اور علوم قرآن کے وسیع ذخیرے سے استفادہ کرنا جن کے لیے ممکن نہیں ہے انہی کی ضروریات کو پیش نظر رکھا ہے "۔
    مصنف کو انشاء پردازی پر بڑی قدرت اور مشکل مضامین کو بھی آسان زبان اور جچے تلے انداز میں لکھنے کا ملکہ ہے؛ چناچہ اس تفسیر میں بھی یہ وصف نمایاں ہے، قرآن کی جو آیات کائناتی حقائق سے متعلق ہیں ان پر بڑی عمدہ گفتگو کی گئی ہے، اسی طرح قصص و واقعات جن کی تحقیق کے لیے علم الآثار اور تاریخی حقائق سے واقفیت مطلوب ہے، بہت اچھی بحثیں ہیں، مستشرقین کے اعتراضات وشبہات کے رد پر بھی شافی وکافی کلام ہے اور اس کو اس تفسیر کا نقطۂ امتیاز قرار دیا جاسکتا ہے، اسی طرح قرآن کا بائبل اور مذہبی صحائف سے تقابلی مطالعہ کی جہاں کہیں ضرورت ہے، وہاں بھی نہایت محققانہ اور فاضلانہ مباحث ہیں، یہ بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ مصنف نے پہلی دوجلدوں میں اختصار کی راہ اختیار کی ہے اور تفسیر وحدیث کے مراجع کی طرف کم التفات کیا ہے، تیسری سے چھٹی جلد تک احادیث وآثار بکثرت نقل کئے گئے ہیں۔
    بہت سی خوبیوں کے باوجود اس تفسیر میں بعض ایسی خامیاں بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے اہل تحقیق علماء کو مصنف سے اختلاف ہے، ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرات انبیاء کے تذکرہ میں بعض مواقع پر ایسی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں جو حدِ ادب سے متجاوز محسوس ہوتی ہیں، مثلاً حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں رقمطراز ہیں :
    " جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا "۔
    (تفہیم القرآن : ٤/٣٢٧)
    اس طرح کی بعض اور تعبیرات بھی اس تفسیر اور مصنف کی بعض دیگر کتب میں بھی موجود ہیں اگر یہ تفسیر اس طرح کی باتوں سے خالی ہوتی اور مصنف نے علماء کے توجہ دلانے کے بعد اہل حق کی شان کے مطابق ایسی باتوں سے علی الاعلان رجوع کرلیا ہوتا تو یقینا یہ بہت بہتر بات ہوتی، زبان سہل اور عام فہم ہے اور قدیم مآخذ کے ساتھ جدید تحقیقات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

    تعارف مصنف :
    سید ابوالاعلٰی مودودی (پیدائش :1903 ء، انتقال :1979 ء) مشہور عالم دین اور مفسر قرآن اور جماعت اسلامی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اسلامی مفکرین میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر، سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنیا کی اسلامی تحاریک کے ارتقاء میں گہرا اثر ڈالا اور بیسیویں صدی کے مجدد اسلام ثابت ہوئے۔
    ابتدائی زندگی
    سید ابوالاعلٰی مودودی 1903 ء بمطابق 1321 ھ میں اور نگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ و اجداد میں ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی گذرے تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان انہی خواجہ مودود چشتی کے نام سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلاتا ہے۔
    آپ کا گھرانہ ایک مکمل مذہبی گھرانہ تھا۔ مودودی نے ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس اپنے والد کی نگرانی میں رہے اور گھر پر تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں انہیں مدرسہ فرقانیہ اور نگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہ راست داخل کیا گیا۔
    1914 ء میں انہوں نے مولوی کا امتحان دیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت ان کے والدین اور نگ آباد سے حیدرآباد منتقل ہوگئے جہاں سید مودودی کو مولوی عالم کی جماعت میں داخل کرایا گیا۔

    Aasan Tarjuma e Quran
    by Mufti Taqi Usmani

    73: یعنی یہودی کہتے ہیں کہ صرف یہودی جنت میں جائیں گے اور عیسائی کہتے ہیں کہ صرف عیسائی۔

    Mufti Taqi Usmani (intro)

    نام : توضیح القرآن ترجمہ آسان قرآن
    مترجم و مفسر : مولانا مفتی تقی عثمانی
    ناشر : مکتبہ معارف القرآن کراچی
    زیر نظر نسخہ : طبع جدید جمادی الاول 1430 ۔ مئی 2009 ء
    مختصر تعارف :
    مصنف تفسیر ھذا کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں :

    آج سے چند سال پہلے تک میرا خیال یہ تھا کہ اردو میں مستند علمائے کرام کے اتنے ترجمے موجود ہیں کہ ان کے بعد کسی نئے ترجمے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ چناچہ جب کچھ حضرات مجھ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کرتے تو اس خدمت کو عظیم سعادت سمجھنے کے باوجود اول تو اپنی نااہلی کا احساس آڑے آتا، اور دوسرے کسی نئے ترجمے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
    لیکن پھر مختلف اطراف سے احباب نے یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اردو کے جو مستند ترجمے اس وقت موجود ہیں وہ عام مسلمانوں کی سمجھ سے بالا تر ہوگئے ہیں، اور ایسے آسان ترجمے کی واقعی ضرورت ہے جو معمولی پڑھے لکھے افراد کی سمجھ میں بھی آسکے۔ یہ مطالبہ اتنی کثرت سے ہوا کہ موجودہ ترجموں کا باقاعدہ جائزہ لینے کے بعد مجھے بھی اس مطالبے میں وزن نظر آنے لگا، اور جب میرا انگریزی ترجمہ مکمل ہوکر شائع ہوا تو یہ مطالبہ اور زیادہ زور پکڑ گیا۔
    چنانچہ اللہ تعالیٰ کے نام پر میں نے ترجمہ شروع کیا۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال تھا کہ عام مسلمانوں کو قرآن کریم کا مطلب سمجھنے کے لیے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحات کی بھی ضرورت ہوگی، اس خیال کے پیش نظر میں نے ترجمے کے ساتھ مختصر تشریحی حواشی بھی لکھنے کا اہتمام کیا۔
    قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو بذات خود ایک عظیم معجزہ ہے، اس لیے اس کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ جو قرآن کریم کی بلاغت اور اس کے بےمثال اسلوب اور تاثیر کو کسی دوسری زبان میں منتقل کردے، بالکل ناممکن ہے۔ لیکن اپنی بساط کی حد تک بندہ نے یہ کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا مطلب آسان، بامحاورہ اور رواں انداز میں واضح ہوجائے۔ یہ ترجمہ بالکل لفظی ترجمہ بھی نہیں ہے، اور اتنا آزاد بھی نہیں ہے جو قرآن کریم کے الفاظ سے دور چلا جائے۔ وضاحت کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ حتی الوسع قرآن کریم کے الفاظ سے بھی قریب رہنے کی کوشش کی گئی ہے اور جہاں قرآن کریم کے الفاظ میں ایک سے زیادہ تفسیروں کا احتمال ہے، وہاں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ ترجمے کے الفاظ میں بھی وہ احتمالات باقی رہیں۔ اور جہاں ایسا ممکن نہ ہوسکا، وہاں سلف کے مطابق جو تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوئی، اس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔
    تشریحی حواشی میں صرف اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ ترجمہ پڑھنے والے کو جہاں مطلب سمجھنے میں کچھ دشواری ہو، وہاں وہ حاشیہ کی تشریح سے مدد لے سکے، لمبے تفسیری مباحث اور علمی تحقیقات کو نہیں چھیڑا گیا، کیونکہ اس کے لیے بفضلہٖ تعالیٰ مفصل تفسیریں موجود ہیں۔ البہ ان مختصر حواشی میں چھنی چھنائی بات عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے کے بعد حاصل ہوئی ہے۔
    تعارف مصنف :
    مفتی محمد تقی عثمانی عالم اسلام کے مایہ ناز عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کررہے ہیں۔
    •
    پیدائش
    مفتی محمد تقی احمد عثمانی تحریک پاکستان کے کارکن اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش سن 1943 میں ہندوستان کے صوبہ اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔
    تعلیم
    آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔
    اجازت
    آپ نے اپنے وقت کے تقریبا تمام جید علماء سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علماء میں خود انکے والد مفتی محمد شفیع عثمانی کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلوی اور مولانا زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔
    تصوف و معرفت
    مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے انکی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہوگئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبدالحئی کے انتقال کے بعد آپ انکے خلیفہ مجاز ہیں۔
    تدریس
    مفتی تقی عثمانی تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دارالعلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اسکے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دارالعلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے، یہی وجہ ہے کہ علماء نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
    رکن اسلامی نطریاتی کونسل
    جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور سنت کے مطابق ڈھالنے کے لئے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور انکی سزاؤوں پر عملد درآمد کے لئے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بینکاری کے خاتمے کے لئے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
    بحثیت جج
    مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لئے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہوگئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ بحثیت جج کئی اہم فیصلے کئے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دیکر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
    اسلامی بینکاری
    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بینکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا۔ لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بینکاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جارہا ہے۔
    اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بینک کام کررہے ہیں۔ کینیڈا کے کئی اسلامی بینکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے کام کرتے ہوئے دو سو فیصد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بینکوں کے مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ اور گنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔
    ملی و سیاسی کردار
    مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبه اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے زریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر آمری کہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق نسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور ٹیوی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتوا دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
    کتابیں
    • آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں
    • آسان نیکیاں
    • اندلس میں چند روز
    • اسلام اور سیاست حاضره
    • اسلام اور جدت پسندی
    • اکابر دیوبند کیا تھے
    • تقلید کی شرعی حیثیت
    • پرنور دین
    • تراشے
    • بائبل کیا ہے
    • جہاں دیدہ
    • دنیا میرے آگے
    • حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق
    • حجت حدیث
    • حضور نے فرمایا
    • فرد کی اصلاح
    • علوم القرآن
    • ہمارا معاشی نظام
    • نمازیں سنت کے مطابق پڑہیں
    • عدالتی فیصلے
    • عیسائیت کیا ہے
    • درسِ ترمذی

    Ahsan ut Tafaseer
    by Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

    (111 ۔ 112) ۔ باوجود طرح طرح کی نافرمانیوں میں گرفتار ہونے کے اہل کتاب کا یہ دعویٰ تھا کہ اپنے آپ کو جنتی اور سب کو دوزخی کہتے تھے۔ اور یہی دعویٰ نصرانیوں کا اپنی قوم کے حق میں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے غلط دعوے کو بےسند قرار دے کر فرمایا کہ جنت میں جانے اور حشر کے دغدغہ سے بےخوف رہنے کے قابل وہی شخص ہے جس کا عمل حکم الٰہی کے موافق اور خالص لوجہ اللہ ہوگا جس کے عمل میں یہ دو شرطیں نہیں وہ جنت میں کیا جاسکتا ہے۔ جنت خدا کی ہے کسی کی میراث نہیں کہ بغیر مرضی خدا کے زبر دستی جنت میں گھس جاوے۔

    Hafiz M. Syed Ahmed Hassan (intro)

    احسن التفاسیر
    احسن التفاسیر تفسیر بالاحادیث کا بہترین مجموعہ ہے، کئی بار چھپ چکی ہے، آخر میں پاکستان میں مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی توجہ اور مولانا عبدالرحمٰن گوہڑوی کی تعلیقات سے چھپی ہے۔ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ پر مشتمل ہے، سید احمد حسن دہلوی (المتوفی ١٣٣٨؁ھ) تلمیذ سید نذیر حسین محدث دہلوی (المتوفی ١٣٢٠؁ ھ) عظیم علمی شخصیت کے مالک تھے، تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ ان کی مشہور تصنیف ہے جو ان کی علمی شان و مہارت تامہ کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں المکتبہ السلفیہ لاہور نے چھاپی ہے۔
    سید احمد حسن احسن التفاسیر کی تالیف کے بارے میں لکھتے ہیں۔ قرآن شریف عربی زبان میں ہے۔ اور ہر شخص کو عربی زبان کے سمجھنے کی طاقت نہیں، اس واسطے شاہ عبدالقادر صاحب مرحوم کے عام فہم اردو کے ترجمہ کے زیادہ عام فہم ہوجانے کی غرض سے اسی ترجمہ کی سلیس اردو کے ڈھنگ پر پہلے چیدہ چیدہ آیتوں کے فوائد احسن الفوائد کے نام سے تین ترجمے کے قرآن مطبوعہ مطبع فاروقی کے حاشیہ پر چھاپ دیے گئے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان فوائد سے مسلمان بھائیوں کو بہت فائدہ پہنچا جس کے سبب سے اس قرآنی ترجمہ مع فوائد کے اب بہت لوگ خواہش مند ہیں لیکن وہ قرآن نہیں ملتا۔ ان فوائد میں چیدہ چیدہ آیتوں کا مطلب تھا، اس واسطے ان فوائد سے پورے قرآن شریف کا مطلب سمجھ میں نہیں آسکتا تھا، اسی لیے ان فوائد کا یہ نقصان رفع کردینے کی غرض جسے شاہ عبدالقادر مرحوم کے ترجمہ کا یہ قرآن اس ڈھنگ سے چھاپا گیا کہ اوپر قرآن شریف کی آیتیں اور ان کا ترجمہ ہے اور نیچے احسن التفاسیر کے طور پر تمام قرآن شریف کی مختصر صحیح تفسیر ہے تاکہ ترجمہ اور اس تفسیر کی مدد سے اردو دان مسلمان مرد اور عورتیں قرآن شریف کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
    مصنف کے احوال :
    مؤلف احسن التفاسیر اللہ تعالیٰ
    ١٢٥٨۔۔۔۔۔۔ ١٣٣٨ ھ
    مولدومسکن : آپ کا خاندان قدیم الایام سے دہلی کا رہنے والا تھا۔ ١٢٥٨ ؁ھ میں آپ دہلی میں پیدا ہوئے قلعہ معلّٰی میں اچھے حاصے خاندانی تعلقات کے باعث بچپن قلعہ معلّٰی میں گذرا۔
    حفظ قرآن : وہی قاری امیدعلی صاحب سے جن کا وطن ڈھا کہ تھا لیکن عرصہ دراز سے دہلی میں رہ رہے تھے۔ قرآن مجید حفظ شروع کیا۔ اور گیارہ سال کی عمر میں حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال ہوگئے۔
    فارسی کی ابتدائی کتابیں : چودہ سال کی عمر تک اس قدر پڑھ ڈالیں کہ فارسی کی عبارت سمجھنے کی اچھی استعداد پیدا ہوگئی۔ عام قابلیت بھی اتنی ہوچکی تھی کہ وہ خط و کتابت بخوبی کرسکتے تھے۔
    ترک وطن : انہی ایام میں ١٨٥٧ ء کا ہنگامہ ہوگیا۔ اس طوفانِ رست خیز میں آپ کے والد بال بچوں سمیت پٹیالہ (حال مشرقی پنجاب ) چلے آئے۔ وہاں پہنچ کر آپ کے والد ماجدنے فارسی کتابوں کی خود تعلیم دینی شروع کی، نیز آپ کو مرزرا احمد بیگ کے بھی سپرد کردیا گیا۔ غالباً اس لئے کہ دفتر کاموں کی واقفیت پیدا ہو سکے۔ چناچہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں فارسی کی تحصیل کے ساتھ ساتھ دفتری امور میں بھی مہارت حاصل ہوگئی ۔ جو حید آباد کی ملازمت کے دوران میں خوب کام آئی۔
    علوم آلیہ کی تحصیل : بعدہٗ ٹونک چلے گئے جو ان دنوں صرف و نحود وغیرہ کامرکز تھا۔ صرف دنحو کی تمام کتابوں کی تکمیل یہاں کرلی اتنے میں دہلی ک حالت معمول پر آئی تو آپ کے والد ماجد پٹیالہ سے دہلی واپس آگئے۔
    آپ بھی والدین کی اوقات کے لئے ٹونک سے دہلی آئے اور والد کے اصرار پر ٹونک کا ارادہ ترک کر کے دہلی میں ہی تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔ مگر تھوڑے عرصے کے بعد اپنے ایک ہم سبق مولوی عبد الغفور ١ ؂ جو بڑے لائق اور قابل آدمی تھے۔ کی معیت میں جناب مولانا محمد حسین ٢ ؂ خاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کا فیض تدریس نحبی طور پر خواجہ ضلع بلند شہر (ہند) میں جاری تھا اور علوم میں اعلیٰ قابلیت کی شہرت رکھتے تھے۔ ان کے ہاں صرف ونحو کو اچھی طرح ضبط کرنے کے علاوہ منطق کی ابتدائی اور وفقہ و ا صولِ فقہ کی کتابیں خوب پڑھیں۔
    اس کے بعد علی گڑھ جا کر مولانا فیض الحسن صاحب سہارن پوری سے اکتسابِ علوم کیا فقہ و اصول اور منطق وغیرہ کی بقیہ کتابوں کے ساتھ ہی تفسیر بھی ان سے پڑھی۔
    تفسیر و حدیث کی تکمیل : پھر واپس آکر حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث قدس اللہ سرہ کی خدمت میں زانوئے تلمذ طے کیا اور حضرت سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں تفسیر و صحاح کی تکمیل کر ڈالی۔ چناچہ حضرت میاں صاحب a نے سند حدیث عنایت فرمائی ۔
    طب : تکمیل علوم شرعیہ کے بعد حکیم امام الدین صاحب مرحوم سے پوری طب پڑھی اور حکیم حسام الدین خاں صاحب مرحوم (عرف منجھلے میاں) کے مطب میں ایک عرصے تک بفرض تجربہ حاضر رہ کر طبابت کی بھی سند حاصل کرلی۔
    سند فراغت کے بعد : حضرت میاں صاحب کی خدمت میں کچھ م دت تدریس و فتویٰ میں مصروف رہے پھر حضرت ہی کے مشورہ سے جناب مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب مرحوم ۔ مصنف ترجمۃ القرآن کے ہاں شادی قرار پائی۔
    ان دنوں ڈپی نذیر احمد صاحب (رح) کا گورکھ پور (ہند) میں قیام تھا۔ شادی وہیں عمل میں آئی۔ پھر ٹونک چلے گئے لیکن کچھ مدت بعد ڈپٹی صاحب موصوف آپ کو حیدر آباد دکن لے گئے اور ضلع نانذیر میں آٹھ سو روپے مشاہرہ پر ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ پر لگوایا۔ جس پر سالہا سال تک سرفراز رہے اور وہیں سے پنشن پائی۔
    ١٣٠٨ ھ ؁ میں حج بیت اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ وہاں آپ کو بھی حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا مگر آپ نے بخندہ پیشانی ان سب کو جھیلا اور ١٣٩٠ ھ ؁ کو بخیریت واپس تشریف لائے۔
    علمی شغف : علمی ذوق کا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ڈپٹی کلکٹر کی ملازمت کے دوران میں آپ نے تین ترجموں والا قرآن مجید مرتب کیا پہلا ترجمہ فارسی فتح الرحمن از شاہ ولی اللہ صاحب (رح) دوسراؔ اردو تحت اللفظ از شاہ رفیع الدین ، تیسیرا اردو با محاورہ از شاہ عبد القادر صاحب۔ پھر اس پر ” احسن الفوائد “ کے نام سے بہترین ملحض تفسیر ی حواشی خود لکھے۔ اس قرآن مجید کو آپ نے اپنے خرچ پر طبع کرایا۔
    تصانیف : احسن ١ ؂ الفوئد (اردو تفسیر ) جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ دو دفعہ دہلی میں طبع ہوا۔ (با ر اوّل ١٣١٥ ھ ؁ بار دوم ١٣٤٧ ھ) ٢ ؂ تفسیر احسن التفاسیر (اردوض ہزاروں صفحات پر مشتمل بہترین اردو تفسیر ١٣٢٥ ھ ؁ میں مطبع فاروق دہلی سے سات بڑی جلدوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر بڑی قابلیت سے مرتب کی گئی ہے جس میں بہت سی تفاسیر کا خلاصہ آسان اور عام فہم انداز میں کردیا گیا ہے۔
    ٣ ؂ مقدمہ تفسیر احسن التفاسیر جو اعلیٰ تفسیری فوائد اور علمی نکات و مباحث پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتا ہے۔ ١٣٣٠ ھ ؁، ١٩١٢ ء ؁ میں طبع ہوا۔
    ٤ ؂ تفسیر آیات الاحکام من کلام رب الانام (اردو) صرف سورة بقرہ کا حصہ کانفرنس اہلحدیث دہلی نے شائع کیا تھا، پور ی ہوجاتی، تو اردو میں آیات احکام کی تفسیر میں اپنی نظیر آپ ہوتی۔ ٤٢٤ صفحات پر ١٩٢١ ء ؁ میں بمقام دہلی طبع ہوئی۔
    ٥ ؂ حاشیہ بلوغ المرام (عربی ) فقہی اور محدثانہ انداز کا جامع حاشیہ ، متن کے ساتھ کم و بیش ٥٠ ٣ صفحات پر مطبع فاروقی دہلی سے ١٣٢٥ ھ ؁ میں شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ١٩٧٨ ء میں سرگودھا سے شائع ہوا۔
    ٦ ؂ تنفتح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوٰۃ کامل محدثانہ طریق پر مشکوٰۃ کا جامع اور بےنظیر حاشیہ ، پہلی جلد خود لکھی باقی اپنی نگرانی میں اور ہدایت کے تحت استاد محترم مولانا محمد شرف الدین محدث دہلوی (متوفی ٰ ١٣٨١ ھ ) سے لکھوائی۔ پہلا ربع ١٣٢٥ ھ میں مطب انصاری دہلی سے اور دوسرا ربع ١٣٣٣ ھ ؁ میں مطبع مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔ دوسرا نصف مجتبائی والوں ک سر د مہری کی نذر ہوگیا تھ ا۔ تا ہم تلاش بسیار کے بعد مبطع مجتبائی والوں کے ورثاء سے اس کا کرم خوردو مسودہ دستیاب ہوگیا اور اس کا تیسیرا ربع راقم کی تصحیح و تحقیق اورا ضافوں کے ساتھ ١٤٠٤ ھ میں دار لدعوۃ السلفیہ لاہور کے اہتمام میں چھپا اور آخری ربع (جو بہت زیادہ خرا بکو کرم خوردہ ہے ) اس کی تصحیح و تحقیق اور استدراکات کا کام جاری ہے۔
    ٧ ؂ بحر ذخار بجوا انتصار ، مولانا انتشار حسین رام پوری نے حضرت میاں صاحب (رح) کی معرکۃ الآرا کتاب ” معیار الحق “ کے جواب میں ” انتصار الحق “ بڑی ضخیم کتاب لکھی ” بخر زخار “ کم بیش تین سوصفحات پر مشتمل اسی کتا ب کا مدلل ، معقول اور سنجیدہ جواب ہے۔
    ٨ ؂ صراط الاھتداء فی بیان الاقتدارء اہلحدیث کے امتیازی مسائل کی تحقیق اور اہل حدیث کی اقتداء میں نماز پڑھنے کے جواز میں مدلل یہ کتاب ١٢٨٩ میں مطبع فاروقی دہلی سے طبع ہوئی۔
    ٩ ؂ عمر کے آخری دور میں مسند احمد کی احادیث کی تخریج شروع کی تھی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ کام کتنا کیا تھا ؟ اور وہ کہیں محفوظ ہے یا نہیں ؟

    وفات : ١٧؍جمادی الاولیٰ ١٣٣٨ ھ ؁ (٩ مارچ ١٩٢٠ ء ؁ ) تقریباً اسی ٨٠ اسی سال کی عمر میں انتقال فرمایا :

    Anwar ul Bayan
    by Muhammad Ali

    (2:111) لن یدخل الجنۃ۔ لن یدخل۔ مضارع معروف نفی تاکید بلن صیغہ واحد مذکر غائب فعل مضارع منصوب بوجہ عمل لن ہے۔ الجنۃ۔ مفعول ہے فعل لن یدخل کا۔ امانیہم۔ مضاف مضاف الیہ ۔ ان کی (جھوٹی) تمنائیں ۔ امنیۃ کی جمع۔ ھاتوا۔ اسم فعل ۔ یعنی اسم بمعنی فعل امر جمع مذکر حاضر ہے۔ لاؤ۔ یہ اصل میں ایتاء (افعال) سے فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ اتوا تھا۔ ہمزہ کو ھاء سے بدل کر ھاتوا کرلیا۔ مھاتاۃ۔ کوئی چیز کسی کو دینا۔ ا ت ی اور ھ ت ی حرف مادہ ہیں ہر دو صورت میں فعل امر کی گردان یوں آئے گی۔ ھات ماتیا ھانوا ۔۔ الخ۔ برھانکم۔ مضاف مضاف الیہ ۔ تمہاری دلیل۔ برھان واحد براھین جمع ۔

    Muhammad Ali (intro)

    یہ کتاب قرآن حکیم کے ان طالب علموں کے لیے لکھی گئی ہے جو زبان عربی کا کم از کم ابتدائی علم رکھتے ہوں اور صرف و نحو کی مبادیات سے واقف ہوں اور اس سلسلہ میں مزید معلومات کے خواہشمند ہوں۔ یہ کتاب نہ صرف ان کو قرآنی عبارت کے مختلف الفاظ اور جملوں کی تعلیل صرفی اور ترکیب نحوی میں مدد گار ثابت ہوگی بلکہ ربط الفاظ و آیات میں بھی معاونت کرے گی۔
    عام لغات (ڈکشنری) کی کتابوں میں الفاظ کے مواخذ و معنی بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان کے صرفی و نحوی پہلو کو چھوڑ دیا گیا ہے اس طرح طالب علم، نہج عبارت اور نشست الفاظ کی اصولی وجوہ سے ناواقف رہ جاتا ہے، بقول مولانا محمد نذیر عرشی مصنف مفتاح العلوم شرح مثنوی مولانا روم :
    " ترکیب نحوی نہ جاننے والے لوگوں کی زباندانی کی مثال اس کوتاہ نظر راہرو کی سی ہے جس کی نظر پگڈنڈی کے صرف اتنے ہی حصے پر ہے جو اس کے پاؤں کے سامنے ہے اور وہ اس تسلسل نظر کے ساتھ اپنی مسافت طے کرتا جارہا ہے بخلاف اس شخص کے جو جانتا ہے کہ یہ کلمہ فعل ہے یہ فاعل ہے یہ اسم موصول ہے یہ جملہ اس کا صلہ ہے ، یہ کلمہ مقدم آنا واجب ہے اور یہ موخر ہونا چاہیے اس کلمہ میں ضمیر کا ہونا ضروری ہے اس کا مرجع یہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس پر عبارت کا مطلب و مدعا خود بخود آئینہ ہوجاتا ہے اور جب وہ عبارت کا ترجمہ کرتا ہے تو ایک مبصر کی حیثیت سے کرتا ہے اس کی مثال اس وسیع النظر اور دور بین راہرو کی سی ہے جس نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے نقشہ کے ذریعہ، سفر ناموں کے مطالعہ سے اور واقفان راہ سے گفتگو کر کے تمام منازل سفر پر نظر ڈال لی ہو۔ خلاصہ یہ کہ اس کا سفر خطرات سے محفوظ ہوگا "۔
    ایسی ہی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری الفاظ، جملوں اور آیات کی صرفی و نحوی لحاظ سے وضاحت کردی گئی ہے اس طرح اصطلاحا یہ کتاب نہ تو ایک لغات ( ڈکشنری) ہے نہ تفسیر نہ ترجمہ، اسی بناء پر اس کا نام " انوار البیان فی حل لغۃ القرآن " رکھا گیا ہے ۔
    سورت اور اس کی آیات کو یا آیات میں مندرجہ جملوں یا الفاظ کو اس ترتیب سے لکھا گیا ہے کہ پہلے سورت کا نمبر دیا ہے اس کے بعد آیت کا نمبر ہے ۔ ازاں بعد جملہ یا الفاظ کا حوالہ ہے ۔ مثلا ١١٩: ٣ میں ٣ سورة آل عمران کو ظاہر کرتا ہے اور ١١٩ سورة آل عمران کی آیت ١١٩ کو، اور اس آیت میں مندرج مشکل الفاظ کو اس آیت کے محاظ درج کیا ہے ۔
    چونکہ اس کتاب میں صرف مشکل الفاظ کی تشریح کی گئی ہے لہذا ضروری نہیں کہ ہر سورة یا ہر پارہ اس کے انہی الفاظ سے شروع ہو جو قرآن میں ہیں۔
    کتاب ہذا کا مقصد طالب علم کو قرآن حکیم کے سمجھنے میں معاونت کرنا ہے لہذا ان کتب سے دل کھول کر مدد لی گئی ہے۔ مؤلف کتاب ہذا کو اپنی کوتاہی علم کا شدت سے احساس ہے۔ لہذا کتاب ہذا میں جو محاسن نظر آئیں ان کے لئے سزاوار تحسین وہ ہستیاں ہیں جن کے گلستان تصنیف سے خوشہ چینی کی گئی ہے البتہ جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کے لئے ذمہ دار وہ خود مؤلف ہے جس کے لئے وہ بارگاہ ایزدی سے معافی کا خواستگار ہے۔

    Ashraf ul Hawashi
    by Muhammad Abdahul-Falah

    ف 3 یہود ہر آن اس کوشش میں رہتے کہ مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کردیا جائے کبھی کہتے کہ جنت صرف یہودیوں کے لیے ہے اور نصاری صرف اپنے آپ کو جنت کا حقدار ظاہر کرتے قرآن نے بتایا کہ یہ جھوٹے دغا باز ہیں اور ان کی یہ جھوٹی اور بےبنیاد قسم کی آرزوئیں ہیں جن کے صحیح ہونے کی سندان کے پاس نہیں ہے۔ فتح القدیر) نیز دیکھے (آیت :80) آجکل مسلمان بھی محض آوزؤں میں مبتلا ہیں اولیاء اللہ اور بندگوں کے نام کا ختم پڑھنے یا ان کے مقبروں پر پھول چڑھادینے کو نجات کے لے کافی سمجھتے ہیں حدیث میں العاجزمن اتبع جفسہ وتمنی علی اللہ لا مانی (رازی )

    Muhammad Abdahul-Falah (intro)

    نام : اشرف الحواشی
    ترجمہ اول : حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی (رح)
    ترجمہ دوم : نواب وحید الزمان خان حیدر آبادی
    مرتب و مؤلف : ابوالقاسم محمد عبدہ الفلاح
    ناشر : شیخ محمد اشرف ناشران قرآن مجید و تاجران کتب
    مختصر تعارف و خصوصیات :
    مؤلف اور ناشر تفسیر کے اخیر میں لکھتے ہیں :
    1 ۔ تاریخ کے ہر دور میں علماء نے قرآن کی تشریح و تفسیر کا فریضہ ادا کیا۔ اور علماء کی ان خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انکا احصاء ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ برصغیر میں خاندان ولی اللہی کی خدمات کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں شاہ رفیع الدین دہلوی (رح) کا ترجمہ اپنی سہولت اور اختصار کے سبب نہایت مقبول ہے اور یہ ترجمہ جو مسلک سلف کا مظہر ہے۔ اس پر خود حضرت النواب نے تفسیری حواشی مرتب فرمائے مگر وہ نہایت مختصر تھے۔ اس بناء پر کسی ایسے تفسیری حواشی کی ضرورت عرصہ سے محسوس ہورہی تھی جو اس ترجمہ سے ہم آہنگ ہو، اور احادیث صحیحہ، دورِ آثار صحابہ و تابعین پر حاوی ہو تاکہ سلف کے طرز پر قرآن سمجھنے والے اس سے اپنا شوق پورا کرسکیں۔ ان تفسیری حواشی میں مندرجہ ذیل اصول کو سامنے رکھا گیا ہے۔
    2 ۔ کتب تفسیر میں ابن کثیر، فتح القدیر اور فتح البیان کو اصل قرار دیا گیا ہے اور ان سے تفسیر بالماثور کا حصہ نہایت اختصار کے ساتھ اخذ کیا گیا ہے۔
    3 ۔ بلا واسطہ کتب حدیث سے استفادہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں صحاح ستہ اور ان کے شروح کو سامنے رکھا گیا ہے۔
    4 ۔ جن عقل پسندوں نے قرآن کی ترجمانی کے زعم میں بعض صحیح احادیث کا انکار کیا ہے، فوائد میں ان پر بھی بالاختصار تنقید کردی گئی ہے۔
    5 ۔ اس تفسیر میں دوترمے ہیں۔ پہلا ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی کا ہے اور دوسرا ترجمہ علامہ نواب وحید الزماں کا۔ نواب صاحب مشہور عالم اور صحاح ستہ کے مترجم ہیں۔ حواشی میں اس امر کا خاص طور پر التزام کیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی متعلقہ آیات کی تائید میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ حدیث درج کی جائے جو مضمون آیات کے عین مطابق ہو۔ حواشی کو اشرف الحواشی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جسے آپ تفسیر قرآن بالحدیث کے نام سے تعبیر کرسکتے ہیں۔

    Asrar ut Tanzil
    by Muhammad Akram Awan

    Muhammad Akram Awan (intro)

    مصنف : امیر محمد اکرم اعوان
    ۔۔۔
    امیر محمد اکرم اعوان مفسر قرآن اور مذہبی پیشوا ہیں جو تنظیم الاخوان کے امیر ہیں۔
    آپ کا تعلق کوہسار کے خوبصورت علاقہ ونہار کے ایک معروف زمیندار خاندان سے ہے آپ نے علاّمہ مو لانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی صحبت کی بھٹی میں پچیس سال کا عرصہ گزارا اور کندن بن کر نکلے۔ حضرت العلاّم مولانا اللہ یار خان نوّر اللہ مرقدہ نے اپنے شاگرد رشید کے سینے میں برکاتِ نبوّت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےکراں سمندر انڈیلا اور اپنے بعد سلسلے کا شیخ نامزد فرمایا۔
    حضرت امیر مکرّم مولانا محمد اکرم اعوان مد ظلہ العالی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ اویسیہ کے فی زمانہ شیخ ہیں ۔ آپ نے اصلی حقیقی تصوّف کو واضح کرنے کے لیے ارشاد السالکین ، کنز الطّالبین، طریقِ نسبتِ اویسیہ، رموزِدلِ ، کنوزِ دل جیسی قریباً چالیس کتب سالکین کی رہنمائی کے لیے تصنیف فرمائیں۔
    آپ نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کی " مسائل السلو ک من کلام الملوک " کی شرح فرمائی اور اپنے عطیم المرتبت شیخ ضرت العلام مولانا اللہ یار خان صاحب (رح) کی کتاب دلائل السلوک کی بھی شرح فرمائی۔
    آپ عصرِ حاضر کی ایک عہد ساز شخصیت ہیں
    آپ نے تعلیمِ بالغاں کا با قا عدہ سلیبس مقرر کر رکھا ہے۔ مختلف کو رسز کے ذریعے لوگ قرآن حدیث ، فقہ اور عربی سیکھتے ہیں۔ جن میں ایمانیات، عبادات، معاملات اور اخلاقیات کی بنیادی تعلیم کے ساتھ معاشیات، عدالت اور معاشرت کی رہنمائی ملتی ہے۔ مَردوں کی طرح خواتین کی تربیت کا نتظام ہے۔ " الا خوات " کا نام سے ان کی بھی تنظیم ہے۔
    آپ نے گزشتہ ادوار ِ حکومت میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کے لیے تحریری مسوّدہ پیش کیا۔ شومٔی قسمت کہ ان حکومتوں کو توفیقِ عمل نہ ہوئی۔
    آپ مفسِّر قرآن ہیں۔ اللہ کریم نے آپ کو علم لَدُنّی سے نوازا ہے۔ اور قرآن پاک کا خص فہم عطا فرمایا ہے۔ یہ اسی علم لدنی کی برکت ہے کہ آپ نے ایک تفسیر " اسرار التنزیل " تحریر فرمائی ہے۔ جس میں آپ نے موقع بہ موقع تسوّف کے رموز کو آشکار کیا ہے ۔ یہ تفسیر صاحب دل حضرات کے لیے کسی نایاب تحفے سے کم نہیں۔ علاوہ ازیں زبان و بیا ن کی خوبیوں سے آراستہ اور خاص و عا م میں پسندیدہ ہے۔ آپ کی دوسری بیانیہ تفسیر " اکرم التفاسیر " ہے جو نصف سے زا ئد یعنی سولہ پا روں میں زیور طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے۔ یہ تفسیر " وَلَقَد یَسَّرنَا القُر آنَ لِلذِّکرِ " آسان قرآن " کا اظہر من الشمس ثبوت ہے۔ آسان زبان میں ہونے کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے حالات کے مطابق ہونے کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ قرآن کریم شاید موجودہ زمانے کے لیے ہی نازل ہوا ہے۔ آپ کی ایک اور پنجابی تفسیر " رب دیاں گلاّں " " اپنا ٹیوی چینل سے ٹیلی کا سٹ ہوتی رہی ہے۔ اس کی سی ڈی اور ڈیوی ڈی وغیرہ دستیاب ہیں اور انشاء اللہ طباعت کے بعد منظر عام پر آ جائے گی۔
    آپ مترجمِ قران بھی ہیں۔ آپ کا قرآن پاک کا سلیس ترجمہ " اکرم التراجم " قدرت اللہ کمپنی کی طرف سے شائع ہو کر کتب خانوں، مساجد اور گھروں کی زینت بن چکا ہے اور اپنی روانی، سلاست اور شستگی کے باعث علماء اور عوام میں یکساں مقبول ہے۔
    آپ صوفی شاعر، محقق اور اور اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں دلی کیفیات زباں پر آئیں تو گردسفر، دیدۂ تر، متاعِ فقیر، نشانِ منزل، آس جزیرہ، کونسی ایسی بات ہوئی ہے اور دِل دروازہجی سے مجموعہ ہائے کلام معرض وجود میں آئے۔
    آپ کے ہزاروں بیانات آڈیو، وڈیو ریکارڈ شدہ ہیں۔ سی ڈیز وغیرہ دستیاب ہیں۔ کتب کے علاوہ بیشمار پمفلٹ ہیں کسی چیز پر رائلٹی نہیں لیتے۔
    آپ الفلاح فاؤنڈیشن کے بانی ہیں جو پورے ملک میں عموماً اور شمالی علاقہ جات میں خصوصاً رفاہِ عامہ کی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔
    آپ صقارہ ایجو کیشن سسٹم کے بانی اور سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ صقارہ اکیڈمی جس کا افتتاح صدر جنرل ضیاء الحق صاحب نے کیا وہاں اقبال کے شاہینوں کی تربیت کی جاتی ہے ۔ صقارہ اکیڈمی دین اور علوم جدیدہ کا حسین امتزاج ہے۔
    العلم علمان : علم الادیان وعلم الابدان کے مصداق spirtual ، نارمیٹو سائنسز کے علم اور فزیکل سائنسز کے علم کا شاہکار عملی نمونہ ہے۔
    اس اکیڈمی کا " راولپنڈی بورڈ " میں ایک خاص مقام ہے۔ اکیڈمی کے تعلیم و تربیت یافتہ سول و آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر ہیں نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی میں قابل تقلید نمونہ کے حامل ہیں۔

    Baseerat e Quran
    by Muhammad Asif Qasmi

    Muhammad Asif Qasmi (intro)

    نام : بصیرت قرآن
    مترجم و مفسر : مولانا محمد آصف قاسمی
    ناشر : مکتبہ بصیرت قرآن کراچی
    مختصر تعارف :
    زیر نظر تفسیر مولانا محمد آصف قاسمی مدظلہ کی تصنیف ہے، مولانا محمد آصف قاسمی، حضرت مولانا قاسم نانوتوی (رح) کے پڑپوتے ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں۔ اور یہ تفسیری مجموعہ در اصل ان کے دروس قرآن ہیں۔ جنہیں بعد ازیں کیسٹوں سے سن کر تحریری شکل دی گئی۔ تفسیر کی خصوصیات خود مصنف کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہیں :
    تفسیر بصیرت قرآن کی چند خصوصیات
    1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ترجمہ و تفسیر کے لکھنے میں میرا بنیادی جذبہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائیں اور اس کے صدقے میں میری مغفرت فرما دیں۔ اس سلسلہ میں میری حیثیت اس بڑھیا جیسی ہے جو مصر کے بازار میں سوت کا ایک گولہ لے کر اس جذبہ کے ساتھ آ گئی تھی کہ اس کا نام بھی یوسف کے خریداروں میں آجائے۔ کیا خبر کہ میری یہ ادنی سی کاوش و کوشش کل قیامت کے دن جب صحابہ کرام، علماء عظام اور بزرگان دین اپنا اپنا انعام حاصل کرے رہے ہوں تو ان کے صدقے میں مجھے بھی مغفرت و نجات کا پروانہ مل جائے۔
    2 ۔ اس پوری تفسیر میں لفظ " خدا " نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ خدا کہنے میں اللہ کی طرف سے کسی اجر و ثواب کا وعدہ نہیں ہے جب کہ لفظ اللہ قرآن کریم کا لفظ ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ قرآن کریم کے ایک ایک حرف پر دس نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے پوری تفسیر میں لفظ خدا لکھنے سے گریز کیا ہے۔
    3 ۔ تفسیر میں اس بات کی پوری کوشش کی گئی ہے کہ آسان زبان میں بات کو سمجھایا جائے کیونکہ عام مسلمانوں کو شکوہ یہ ہے کہ تفسیروں میں اتنے مشکل الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن کے سمجھنے میں بڑی دشواری ور مشکل پیش آتی ہے لہذا میں نے زیادہ سے زیادہ سادہ الفاظ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں اس کا صحیح فیصلہ تو قارئین ہی کرسکتے ہیں۔
    4 ۔ اس بات کی ممکن حد تک کوشش کی گئی ہے کہ فقہ حنفیہ کے مطابق بیان کیا جائے کیونکہ جب ہم مختلف فقہا کا مسلک بیان کرتے ہیں تو آسان پسند لوگ ہر فقہ سے اپنے مطلب کے مسائل نکال کر خود ہی فیصلے کرنے لگتے ہیں۔ چونکہ اس کی وجہ سے کافی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اس لیے میں نے عام طور پر اسی قول کو نقل کیا ہے جو فقہ حنفی کے مطابق ہے۔
    5 ۔ تفسیر کرنے میں میری کوشش یہ رہی ہے کہ جو آیت سامنے ہے اس کے مفہوم کو واضح کرکے بتادیا جائے تا کہ بات مختصر بھی ہو اور سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
    6 ۔ ترجمہ کے ساتھ الفاظ قرآن کا الگ الگ ترجمہ بھی کردیا ہے تاکہ جو شخص قرآن کے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ خود بھی ترجمہ سیکھنا چاہتا ہو وہ لغات القرآن اور تفسیر کے مطالعہ سے قرآن کریم کو با ترجمہ سیکھ سکے۔
    7 ۔ پوری تفسیر میں میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اپنی رائے سے کوئی بات نہ لکھوں جہاں کوئی اختلافی مسئلہ ہوتا ہے اس میں مختلف مفسرین کی رائے پیش کردیتا ہوں کیونکہ ہمارے اکابر نے پوری زندگیاں لگا کر حق و صداقت کی باتوں پر تحقیق فرمائی ہے اور اس کو امت کے سامنے پیش کیا ہے۔ میں نے بھی ان ہی بزرگوں کے فیض سے روشنی حاصل کرکے ایک ادنی سی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے ۔ آمین۔

    Bayan ul Quran
    by Maulana Ashraf ali Thanvi

    Maulana Ashraf ali Thanvi (intro)

    ترجمہ و تفسیر بیان القرآن
    سوفٹ وئیر میں شامل نسخہ تاج کمپنی کا ہی ہے۔
    یہ ترجمہ وتفسیر مشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی المتوفی ١٩٤٣؁ء کا ہے جس کا پہلا ایڈیشن ١٩٠٨؁ء میں مطبع مجتبائی دہلی سے بارہ جلدوں میں طبع ہوا تب سے برابر چھپتا رہتا ہے۔ بعض ایڈیشن میں صرف ترجمہ ہی چھپتا ہے۔ قرآن شریف کے جو تراجم سب سے زیادہ چھپتے ہیں ان میں اس کا بہت اونچا مقام ہے۔ ترجمہ سلیس، سہل اور آسان ہے۔ تفسیر میں جن نواحی کو شامل کیا ہے اس سے عوام کم علماء زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بعد ازاں انڈ و پاک میں لا تعداد مکاتب نے شائع کیا۔
    حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) کا نام کم سے کم برصغیر میں کسی صاحب علم کے لیے محتاجِ تعارف نہیں، آپ بلند پایہ فقہیہ، حدیث کے ذوق آشنا اور تصوف میں اپنے عہد کے گویا امام تھے، ایک خلقت کی اللہ نے آپ کے ذریعہ اصلاح فرمائی اور بڑے بڑے اہل علم وفضل آپ کے دامن تربیت سے وابستہ ہوئے، یہ تفسیر آپ ہی کی ہے اور آپ کی عمیق فکرونظر اور گہری بصیرت کی شاہد عدل ہے، آپ نے احباب کے بہت اصرار پر یہ تفسیر لکھی، جو تقریباً چھ سال کی مدت میں مکمل ہوئی اور پہلی بار ١٣٢٦ ھ میں " اشرف المطابع " تھا نہ بھون سے طبع ہوئی، اس تفسیر کی خصوصیات یہ ہیں : قرآن مجید کا نسبۃ آسان اور سلیس ترجمہ کیا ہے جو بامحاورہ ہونے کے باوجود الفاظِ قرآنی سے بھی پوری طرح ہم آہنگ ہے، دوسرے یہ کہ ترجمہ میں خالص محاورات استعمال نہیں کئے گئے ہیں؛ کیونکہ محاورات ہر جگہ ومقام کے الگ الگ ہوتے ہیں، ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب (رح) کے ترجمہ کے قریب ہے، تیسرے یہ کہ نفس ترجمہ کے علاوہ جس مضمون پر توضیح کی ضرورت تھی یا کوئی شبہ خود قرآن کے مضمون سے بظاہر پیدا ہوتا ہے اس جگہ " ف " بناکر اس کی تحقیق و وضاحت کردی گئی ہے، لطائف ونکات یاطویل وعریض حکایات وفضائل اور فقہی احکام کی تفصیلات سے تفسیر کو طویل نہیں کیا گیا ہے، چوتھے جس آیت کی تفسیر میں بہت سے اقوال مفسرین کے ہیں، ان میں جس کو ترجیح معلوم ہوئی صرف اس کو نقل کیا گیا ہے، پانچویں خلافیات کی تفسیر میں صرف مذہب حنفی کو لیا گیا ہے اور دوسرے مذاہب بشرط ضرورت حاشیہ میں لکھ دیئے گئے ہیں، چھٹے نفعِ عوام کے ساتھ افادہ خواص کا خیال کرتے ہوئے ایک حاشیہ عربی میں بڑھادیا گیا ہے، جس میں غیر مشہور لغات، وجوہ بلاغت، مغلق تراکیب، خفی استنباط، فقہیات وکلامیات اور اسباب نزول وغیرہ پر گفتگو کی گئی ہے، یہ نہایت ہی عالمانہ تفسیر ہے اور دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے بہت ہی نفع بخش ہے؛ بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اردو کی " جلالین " ہے۔
    مصنف کا تعارف :
    نام نامی ولقب گرامی
    نام نامی ” اشرف علی “ ہے، یہ نام اس زمانہ کے مقبول و مشہور مجذوب و بزرگ حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتی رحمة اللہ علیہ نے تجویز فرمایا تھا۔ أپ کالقب ” حکیم الامت “ ہے، جسے عرصہ دراز سے حق تعالیٰ نے خواص و عوام میں القا فرمادیا ہے اور جو بلاد و اَمصار میں عام طور پر شائع و ذائع ہے۔

    شرف نسب
    حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ والد کی طرف سے فاروقی اور والدہ کی طرف سے علوی النسب ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ والد ماجد کا نام ” عبدالحق “ تھا، آپ قصبہ تھا نہ بھون ضلع مظفر نگر کے ایک مقتدر رئیس ، صاحب نقد و جائیدا د تھے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ محترمہ بھی ایک باخدا اور صاحب نسبت بی بی تھیں، نیز ان کی عقل و فراست اور فہم و بصیرت کی تصدیق حضرت حافظ غلام مرتضیٰ صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔

    وطن مالوف
    حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کا وطن مالوف قصبہ تھا نہ بھون ہے، جو ضلع مظفر نگر ہندوستان میں واقع ہے، اس کا اصل نام ” تھا نہ بھیم “ تھا، کیوں کہ یہ کسی زمانہ میں راجا بھیم کا تھا نہ تھا، کثرت استعمال سے تھا نہ بھون ہوگیا، البتہ جب مسلمان یہاں آکر آباد ہوئے تو شرفائے قصبہ کے بعض اجداد نے اپنے ایک فرزند ” فتح محمد “ کے نام سے اس کا نام ” محمد پور “ رکھا، جو کاغذات شاہی میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن عام طور پر پرانا نام ” تھا نہ بھون “ ہی مشہور ہے۔

    ولادت باسعادت
    حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 15 ربیع الثانی 1280 ھجری کو چار شنبہ کے دن بوقت صبح صادق ہوئی۔

    بچپن کے حالات
    حضرت رحمة اللہ علیہ بچپن ہی سے اعزہ و اقارب ، اپنوں اور بیگانوں سب میں محبوب رہے، بچپن میں شوخیاں بہت فرمائیں، مگر ایسی کوئی شرارت نہیں کی جس سے دوسروں کو تکلیف وایذا پہنچے ، شروع ہی سے نماز کا بہت شوق تھا، فرائض کے اہتمام کے علاوہ صرف 13-12 برس ہی کی عمر سے رات تہجد میں اٹھتے اور نوافل و وظائف پڑھا کرتے تھے۔

    تحصیل علوم
    حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ نے قرآن شریف زیادہ تر دہلی کے حافظ حسین علی رحمة اللہ علیہ سے حفظ کیا، البتہ شروع کے چند پارے ضلع میرٹھ کے آخون جی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھے تھے۔

    ابتدائی فارسی میرٹھ میں مختلف استادوں سے پڑھی، پھر تھا نہ بھون میں فارسی کی متوسطات حضرت مولانافتح محمد صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں اور انتہائی کتب اپنے ماموں واحد علی صاحب رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں، جو ادب فارسی کے استاد کامل تھے۔ تحصیل عربی کے لیے دیوبند تشریف لیے گئے، وہاں بقیہ کتب فارسی مولانا منفعت علی صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ سے پڑھیں۔ عربی کی پوری تکمیل دیوبند ہی میں فرمائی اور صرف 19 یا 20 سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ التحصیل ہوگئے ۔

    اساتذہ کرام
    آپ کے تمام اساتذہ ہر فن ماہر ہونے کے ساتھ بڑے صاحب باطن اور کامل بھی تھے ، گویا ان میں ہر ایک غزالی اور رازی وقت تھا۔ اساتذہ کرام میں حضرت مولانا یعقوب صاحب، مولانا سید احمد صاحب، مولانا محمود صاحب، مولانا عبدالعلی صاحب اور حضرت شیخ الہند محمود حسن صاحب رحمھم اللہ شامل ہیں۔ قراءت کی مشق شہرہ آفاق قاری ، جناب قاری محمد عبداللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ سے بمقام مکہ معظمہ فرمائی۔

    درس و تدریس
    مروجہ علوم سے فراغت کے بعد حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ صفر 1301 ھ سے 1315 ھ تقریبا 14 سال تک کان پور میں مدرسہ فیض عام میں درس و تدریس میں مشغول رہے اور اپنے مواعظ حسنہ اور تصانیف مفیدہ سے وہاں کے مسلمانوں کو مستفید فرماتے رہے، علاوہ بریں افتاء کا کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا تھا، 14 سال کے بعد اپنے پیرو مرشد کے حکم سے دوبارہ اپنے وطن تھا نہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔

    تلامذہ
    قیام کان پور کے زمانہ میں نزدیک و دور کے صدہا طلبہ نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے علوم فاضلہ حاصل کیے ، سب کا استقصا تو ممکن نہیں ، البتہ چند مخصوص حضرات قابل ذکر یہ ہیں : مولانا قاری محمد اسحاق صاحب برودانی، مولانا محمد رشید صاحب کان پوری ، مولانا احمد علی صاحب فتح پوری، مولانا صادق الیقین صاحب کرسوی، مولانا فضل حق صاحب الہ آبادی ، مولانا شاہ لطف رسول صاحب فتح پوری، مولانا حکیم محمد مصطفیٰ صاحب بجنوری، مولانا اسحاق علی صاحب کان پوری ، مولانامظہر الحق چاٹ گامی، مولانا سعید احمد اٹاوی ، حضرت مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی ، مولانا سعید صاحب، مولانا مظہر علی صاحب تھانوی وغیرہ رحمھم اللہ کے علاوہ پاک ہند کے بیشمار حضرات نے حضرت رحمة اللہ علیہ سے فیض پایا ہے۔

    حضرت حاجی صاحب سے بیعت اور خلافت و اجازت
    1301 ھ میں حضرت حج کے لیے تشریف لیے گئے تو آپ کو حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، 1310 ھجری میں دوسری بار حج کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی طلب صادق اور حضرت شیخ کی منشا اور ان کی خواہش کے مطابق وہاں چھ ماہ قیام فرمایا۔ حضرت حاجی صاحب رحمة اللہ علیہ نہایت شفقت و محبت کے ساتھ اپنے مرید صادق کی تربیت باطنی کی طرف متوجہ ہوگئے اور وہ تمام علوم باطنی اور اسرار و رموز روحانی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب پاک پر وارد و القا فرمائے تھے حضرت کے قلب مصفیٰ میں منتقل فرماتے رہے ؛نتیجہ یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں حضرت شیخ کی توجہات خاص سے حضرت کا سینہ مبارک معارف و حقائق باطنی کا خزینہ اور انوار وتجلیات روحانی کا آئینہ بن گیا اور محبت حق سبحانہ وتعالیٰ اور محبت نبی الرحمہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوزو گداز رگ و پے میں سرایت کرگئے۔

    بالآخر ہر صورت سے مطمئن ہو کر حضرت حاجی صاحب نے خلعت خلافت اور منصب ارشاد و ہدایت سے سرفراز فرمایا اور خلق اللہ کی راہ نمائی کے لیے تعلیم و تلقین کی اجازت مرحمت فرمائی اور فرمایا : ” میاں اشرف علی ! میں دیکھتا ہوں کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے تم کو تمام معاصرین پر خاص فضیلت عطا فرمائی ہی “ ،” ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء “․

    تھانہ بھون میں مستقل قیام
    1310 ھجری میں کان پور سے سبک دوشی اختیار کرکے اپنے وطن تھا نہ بھون تشریف لائے اور اپنے شیخ کو اطلاع دی ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا : ” بہتر ہوا آپ تھا نہ بھون تشریف لیے گئے ، امید ہے کہ آپ سے خلق کثیر کو فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا اور آپ ہمارے مدرسہ اور خانقاہ کو ازسر نو آباد کریں گے، میں ہر وقت آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں اور آپ کا مجھے خیال رہتا ہے “۔

    چناں چہ حضرت رحمة اللہ علیہ نے حضرت حافظ محمد ضامن صاحب شہید، حضرت مولانا شیخ محمد صاحب اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمھم اللہ کی خانقاہ میں مستقل سکونت اختیار کی اور خلق خدا کو مستفید فرمانے لگے۔

    حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ کے چند مشہور خلفاء
    (1) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمة اللہ علیہ (2) حضرت ڈاکٹر عبدالحئ صاحب عارفی رحمة اللہ علیہ (3) حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمة اللہ علیہ (4) حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب رحمة اللہ علیہ (5) مولانا ولی محمد صاحب بٹالوی رحمة اللہ علیہ (6) مولانا ابرارالحق صاحب حقی رحمة اللہ علیہ (7) حضرت مولانا رسول خان صاحب رحمة اللہ علیہ (8) حضرت مولانا کفایت اللہ شاہ جہان پوری رحمة اللہ علیہ (9) حضرت مولاناشیر محمد صاحب مہاجر مدنی رحمة اللہ علیہ (10) حضرت مولانا شاہ وصی اللہ رحمة اللہ علیہ (11) حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ (12) حضرت مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رحمة اللہ علیہ (13) حضرت مولانا عبدالغنی پھول پوری رحمة اللہ علیہ (14) حضرت مولانا محمد انوار الحسن صاحب کا کو روی رحمة اللہ علیہ (15) حضرت مولانا محمد موسیٰ سرحدی رحمة اللہ علیہ (16) حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاندپوری رحمة اللہ علیہ (17) حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب کیمبل پوری رحمة اللہ علیہ (18) حضرت مولانا عبدالرحمن کان پوری رحمة اللہ علیہ (19) حضرت مولانا عبدالکریم گھمتھلوی رحمة اللہ علیہ (20) حضرت مولانا عبدالباری ندوی رحمة اللہ علیہ (21 ) حضرت خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب رحمة اللہ علیہ۔

    علوم دینیہ میں خدمات اور تصانیف
    علوم دینیہ سے متعلق قرآن مجید کی تفاسیر میں احادیث سے استنباط میں، فقہ کی توجیہات میں، تصوف کی غایات میں ، جہاں عوام و خواص غلط فہمیوں اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوگئے تھے، وہاں اس مجدّد عصر کی نظر اصلاح کار فرما نظر آتی ہے اور ان علوم کے ہر باب میں مفصل تصانیف موجود ہیں۔

    حضرت حکیم الامت رحمة اللہ علیہ کی تصانیف کی تعداد تقریباً ایک ہزار سے متجاوز ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی تمام تصانیف و تالیفات ، تمام مواعظ و ملفوظات ، تحریری و تقریری کارناموں کو ملاحظہ کیا جائے تو یہ بات نمایاں طور سے آشکار ا ہوتی ہے کہ دین مبین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو حکیم الامت ، مصلح شریعت و طریقت کی اصلاحی و تجدید ی جدوجہد کے احاطہ میں نہ آیا ہو۔

    وفات وتدفین
    آخر عمر میں کئی ماہ علیل رہ کر 16 رجب المرجب 1362 بمطابق 20 جو لاائی 1943 ء کی شب آپ رحلت فرماگئے اور تھا نہ بھون میں آپ ہی کی وقف کردہ زمین ” قبرستان عشق بازاں “ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون !

    Fahm ul Quran
    by Mian Muhammad Jameel

    Mian Muhammad Jameel (intro)

    فہم القرآن
    ہمارے سوفٹ وئیر میں ایک تفسیر " فہم القرآن " بھی شامل ہے جو ابوہریرہ اکیڈمی 37 ۔ کمرشل کریم بلاک اقبال ٹاؤن لاہور والوں کی شائع کردہ ہے اور اس کے مصنف میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم ہیں۔ تفسیر کا مختصر تعارف پیش ہے۔۔
    مصنف تفسیر کے آغاز میں " فہم القران اور اعتراف حقیقت " کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں :
    رسولِ محترم e کی بعثت کے مقاصد میں سے مرکزی مقصد یہ بھی تھا کہ آپ قرآن کے مطابق لوگوں کے سامنے عملی نمونہ پیش کریں اور اپنی زبان اطہر سے قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر فرمائیں۔ جس کو صحابہ کرام y نے آپ سے براہ راست سیکھا ‘ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ جہاں تک تفسیر قرآن کا تعلق ہے آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس w کو قرآن فہمی کی دعا سے سرفراز فرمایا۔ حضرت عبداللہ بن عباس w اور صحابہ کرام y نے اپنی اولاد اور شاگردوں کو قرآن پڑھایا اور سمجھایا۔ اس طرح قرآن مجید کی تبلیغ تحریر ، تقریر اور تدریس کے ذریعے نسل در نسل جاری رہی تاآنکہ 270 ہجری میں جامع البیان کے نام پر علامہ ابو جعفر بن جریر طبری نے چالیس سال کی جدوجہد سے کتبات ‘ مسوّدات اور مختلف اہل علم سے استفادہ فرما کر تیس جلدوں پر محیط تفسیر جامع البیان لکھی جو تفسیر ابن جریر کے نام سے معروف ہے۔ ان کے بعد حافظ عماد الدین ابو الفداء اسمعیل بن کثیر المعروف امام ابن کثیر نے تفسیر ابن کثیر رقم فرمائی جو تمام مسالک کے نزدیک ممتاز اور منفرد تفسیر سمجھی جاتی ہے۔ بعد ازاں ہر دور اور ہر زبان میں قرآن مجید کی تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ برصغیر میں انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی ابتدا میں تراجم اور تفاسیر کا بیشمار ذخیرہ اردو زبان میں پیش کیا گیا جو علمی اور اسنادی اعتبار سے عربی کے سوا تمام زبانوں میں لکھی جانے والی تفاسیر پر حاوی ہے۔ ماضی قریب میں تفہیم القرآن ‘ تدبر قرآن ‘ معارف القرآن ‘ تفسیر ثنائی ‘ تیسیرالقرآن ‘ ضیاء القرآن کے مؤلفین نے اپنے اپنے انداز اور نقطۂ نگاہ سے فرقانِ حمید کی تفسیریں لکھیں جو اردو زبان میں ممتاز تفاسیر شمار ہوتی ہیں۔
    فہم القرآن اور اعترافِ حقیقت
    تفسیر کا نام سورة الانبیاء کی آیت 79{ فَفَھَّمْنٰـھَا سُلَیْمٰنَ } سے لیا گیا ہے ۔ میں اس سچائی کا محض روایتی اور عاجزانہ نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ اعتراف کرتا ہوں کہ خدمت قرآن کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مجھ سے کم علم آدمی کوئی نہیں گزرا ہوگا کہ جس نے قرآن مجدی کے کسی پہلو پر قلم اٹھایا ہو۔ میں نے بزرگوں کی خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں کیا۔ میرے کام میں حسن و خوبی کا کوئی پہلو دکھائی دے تو وہ اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ اور متقدمین کی پر خلوص کوششوں کا ثمرہ ہے۔ کوتاہی اور کمزوری کو میری کم علمی اور کوتاہ فہمی تصور کرتے ہوئے آگاہ کیا جائے تاکہ اس کی تصحیح کی جائے ۔ اپنے مختصر تدریسی تجربہ اور تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہوئے چند باتوں کی ضرورت محسوس کی جس بنا پر ضروری سمجھا کہ اگر درج ذیل باتیں تفسیر میں جمع کردی جائیں تو عوام الناس ‘ طلبہ اور مبتدی خطباء کے لیے نہایت مفید اور بہتر ہوگا۔
    (١) ۔ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ (٢) ربطِ کلام (٣) ۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کا بیان
    (٤) ۔ تفسیر بالقرآن کے حوالے سے ہر آیت کے مرکزی مضمون سے متعلقہ چند آیات جمع کرنا۔
    اللہ تعالیٰ اسے قبولیت کے شرف سے نوازے اور تعاون کرنے والوں کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔ آمین یا رب العٰلمین۔
    نوٹ : (قاری حضرات سے گزارش ہے کہ وہ لفظی ترجمہ کی بجائے رواں ترجمہ سے استفادہ کریں کیونکہ لفظی ترجمہ میں باہم ربط نہ ہونے کی وجہ سے الجھن پیش آسکتی ہے ۔ لفظی ترجمہ تعلیم و تعلم کے لیے زیادہ مفید ہوتا ہے ۔ )
    مفسّر کا تعارف
    میاں محمد جمیل بن میاں محمد ابراہیم گوہڑ چک 8 پتو کی (قصور) اپریل 1947 ء آرائیں فیملی میں پیدا ہوئے۔ حفظِ قرآن اور سکول کی تعلیم اپنے گائوں میں حاصل کی۔ تجویدِ قرآن جامعہ محمدیہ اور درس نظامی کی تعلیم جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ سے پائی بعد ازاں وفاق المدارس کیا اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ایم۔ اے اسلامیات اور فاضل اردو کی ڈگریاں حاصل کیں۔ فراغت ِ تعلیم کے بعد لاہور میں کاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ جون 1986 ء میں جامع مسجد ابوہریرہ (رض) کی بنیاد کریم بلاک اقبال ٹائون میں رکھی اور اعزازی خطابت کی ذمہ داری سنبھالی۔ 1997 ء میں ابوہریرہ (رض) شریعہ کالج کا آغاز کیا جو اب تک ملک میں واحد ادارہ ہے جس میں طلبہ کو چار سال میں درس نظامی اور بی ۔ اے (Compulsoy) کروایا جاتا ہے۔ 1987 ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری اطلاعات اور 1996 ء سے لے کر 2002 تک مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سیکرٹری جنرل رہے۔ سیکرٹری شپ کا دوسرا ٹینور پورا ہونے پر آئندہ ذمہ داری سنبھالنے سے معذرت کی اور اپنے آپ کو تعلیم و تصنیف کے لیے وقف کیا۔ دیگر کتب تحریک کے بارے میں تالیف کرنے کے بعد 2005 ء میں تفسیر فہم القرآن لکھنے کا آغاز کیا۔ ہر سال پانچ پاروں پر مشتمل منظر عام پر منظر عام پر آتی رہی اور الحمدللہ 6 سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی اور زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ۔ اس تفسیر کی اہم خصوصیات یہ ہیں۔
    ١۔ تفسیر رازی، ابن کثیر ، تفہیم القرآن، ضیاء القرآن، معارف القرآن اس کے علاوہ دیگر عربی تفاسیر کے اہم نکات پر مشتمل ہے۔
    ٢۔ لفظی ترجمہ کے ساتھ ساتھ سلیس بامحاورہ ترجمہ جو دل میں اتر جائے۔
    ٣۔ علم وادب کا مرقع اور ہر آیت کی تفسیر حدیث رسول e کے ساتھ ہے۔
    ٤۔ ہر آیت کے الگ الگ مسائل کی نشاندہی جو ذہن پر منقش ہوجائیں۔
    ٥۔ آیت کے مرکزی مضمون کی تفسیر دیگر آیات کے ساتھ ایک مکمل تقریر جو علماء اور لیکچرار حضرات کے لیے عظیم تحفہ ہے۔

    Fi Zilal al Quran
    by Sayyid Qutb Shaheed

    مدینہ طیبہ میں جو لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں اترے ہوئے تھے وہ یہودی تھے کیونکہ وہاں نصرانیوں کا کوئی ایسا منظم گروہ موجود نہ تھا جو یہودیوں کی طرح اسلام دشمنی میں مبتلا ہوتا لیکن آیت میں انداز بیان کو عام رکھا گیا ہے ۔ یہاں آیات الٰہی دونوں گروہوں کے اقوال کی تردید کرتی ہے ۔ اور ایک دوسرے کے بارے میں یہو و ونصاریٰ دونوں کے اقوال نقل کرکے آخرت میں ان دونوں کے بارے میں مشرکین عرب کے خیالات نقل کردیئے جاتے ہیں وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى” ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک وہ یہودی نہ ہو یا عیسائی نہ ہو۔ “ یہاں ان دونوں فرقوں کے دعوؤں کو یکجا کرکے بیان کیا گیا ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ مدعی تھا ۔ یہودی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو یہودی ہو اور نصرانی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہوگا جو نصرانی ہو ۔ ان دونوں کے یہ لمبے چوڑے دعوے محض ادعائی تھے ۔ ان کی پشت پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے دعوؤں کی دلیل پیش کرنے کا چیلنج کریں۔ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ ” ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ “ یہاں اللہ تعالیٰ موقع کی مناسبت سے مکافات عمل کے بارے میں اسلامی نظریہ حیات کا ایک اہم اصول بیان کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس معاملے میں کسی امت کسی گروہ یا کسی فرد کی کوئی رورعایت نہ کی جائے گی ۔ اللہ کے ہاں جس چیز کی قدر ہے وہ نیکی اور مکمل بندگی اور تسلیم ورضا ہے ۔ یہاں محض نام اور عنوان کو دیکھ کر فیصلے نہیں ہوتے ۔

    Sayyid Qutb Shaheed (intro)

    مصنف کے حالات :
    سید قطب 1902 ء میں مصر کے ایک صوبہ اسیوط کے ایک گاؤں موشاء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حاجی قطب ابراہیم اور والدہ کا نام فاطمہ حسین عثمان تھا۔ دونوں عربی النسل تھے۔ سید قطب اپنے والدین کے سب سے بڑے لڑکے تھے۔
    آپ نے ثانوی تعلیم تجہیزیہ دار العلوم نامی ایک اسکول میں حاصل کی۔ اس اسکول میں طلباء کو دار العلوم میں داخلہ کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ وہاں سے فارغ ہوکر آپ 1929 میں قاہرہ کے دار العلوم میں داخل ہوئے۔ 1933 میں آپ نے بی۔ اے کی ڈگری اور ڈپلومہ ان ایجوکیشن حاصل کیا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بحیثیت انسپکٹر تعلیم ملازمت اختیار کرلی اور 1952 ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی دوران 1954 ء میں آپ اخوان المسلمون سے متعارف ہوئے۔ اور 2 جولائی 1954 ء میں آپ کو اخوان کے شعبہ نشر و اشاعت نے اخبار الاخوان المسلمون کا ایڈیٹر مقرر کیا۔
    شہید اسلام سید قطب 1954 سے لے کر 1964 تک جیل میں رہے اور اگست 1964 ء میں مرحوم عبدالسلام عارف صدر عراق کی کوششوں سے رہا ہوئے۔ رہا ہوتے ہی پوری دنیا کے نوجوانوں نے آپ کی طرف رجوع کیا اور آپ کا لٹریچر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلنے لگا۔ چناچہ لادین مغرب پرست کمیونسٹ اور سوشلسٹ عناصر چیخ اٹھے اور بیک وقت ماسکو اور واشنگٹن سے ان کے خلاف سازشیں ہونے لگیں۔ چناچہ آپ کو ایک سال بعد اگست 1965 ء میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا اور ایک سال بعد 29 اگست 1966 ء میں آپ کو شہید کردیا گیا۔ اللہ آپ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔

    Anwar ul Bayan
    by Maulana Aashiq illahi Madni

    یہود و نصاریٰ کا قول کہ جنت میں ہم ہی جائیں گے اور اس کی تردید اس آیت شریفہ میں یہود و نصاریٰ کا یہ دعویٰ ذکر فرمایا ہے کہ جنت میں یہود و نصاریٰ کے علاوہ ہرگز کوئی داخل نہ ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے بارے میں یہ کہا کہ صرف ہم جنتی ہیں اور نصاریٰ نے اپنے بارے میں یہی کہا دونوں فریق باوجودیکہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں تحریف کر بیٹھے اور اللہ کے رسول حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں شرک داخل کردیا۔ اس سب کے باوجود دونوں جماعتوں کو یہ غرور تھا اور اب بھی ہے کہ صرف ہم ہی جنتی ہیں۔ کفر اختیار کریں پھر بھی جنتی ہوں یہ ان کی سراپا جہالت حماقت اور سفاہت ہے۔ اور ان کا یہ دعویٰ بالکل بےبنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ (تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ ) کہ یہ ان کی آرزوئیں ہیں۔ صرف آرزو سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ایمان نہ ہو نجات نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا (قُلْ ھَا تُوْا بُرْھَا نَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ” آپ ان سے فرما دیجیے کہ اگر اپنی آرزوؤں میں سچے ہو تو اس کی دلیل پیش کرو۔ “ دعویٰ بلا دلیل، بلا سند، بلا حجت کیسے مانا جائے گا ؟ یہود و نصاریٰ کو بڑا غرور تھا وہ سمجھتے تھے کہ ہم مقربان الٰہی ہیں سورة مائدۃ میں ہے کہ انہوں نے کہا :۔ (نَحْنُ اَبْنَآء اللّٰہِ وَ اَحِبَّاءُہٗ ) ” کہ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں۔ “ اولاد تو اس کی ہے ہی نہیں، یہ عقیدہ شرکیہ ہے کہ اس کی اولاد ہو، شرکیہ عقیدہ رکھنے والا اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب اور مقرب کیسے ہوسکتا ہے ؟ اپنی حماقت سے اور اپنے مذہبی پیشواؤں کے بہکانے سے وہ یہ باطل خیال جمائے ہوئے ہیں کہ صرف ہماری ہی نجات ہوگی اور صرف ہم ہی جنتی ہیں، یہودیوں کا دین تو خاندانی دین ہے وہ اپنے خاص خاندان کے باہر اپنے دین کی تبلیغ کرتے ہی نہیں اس کا معنی یہ ہے کہ ان کے نزدیک ساری دنیائے انسانیت کے لیے اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا کوئی دین نہیں ہے صرف اپنے خیال سے اپنی نجات کا یقین کر بیٹھنا اور یہ سمجھ لینا کہ ہم ہی جنتی ہیں اور باقی سارے انسانوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ ان کے لیے خالق ومالک کی طرف سے کوئی ہدایت نہیں، جسے اختیار کر کے وہ مستحق جنت بنیں، سرا سر خود فریبی ہے۔ نصاریٰ سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے سمجھے جاتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہم جس دین پر ہیں وہ دین نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دے کر بھیجا تھا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ فرمایا ہو کہ میں اللہ کا بیٹا ہوں یا یہ فرمایا ہو کہ میری اور میری والدہ کی عبادت کرو، یا یہ فرمایا ہو کہ لوگ مجھے قتل کردیں گے اور میرے قتل کے بعد جو شخص یہ عقیدہ رکھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بیٹے کو قتل کرا کر ان سب لوگوں کے گناہوں کا کفارہ کردیا جو ان کو اللہ کا بیٹا مانیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ سب باتیں نصاریٰ کی خودتراشیدہ ہیں سیدنا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان میں سے کوئی بات بھی نہیں فرمائی انہوں نے تو صرف اللہ کی عبادت کرنے کی تبلیغ کی اور نصاریٰ جو کچھ کہتے ہیں ان کے پاس اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ باتیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بتائی ہیں۔ یہ باتیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد ان کے جھوٹے ماننے والوں نے کئی سو سال کے بعد تجویز کیں کیونکہ اس میں تن آسانی ہے اور پورے گناہ کرتے ہوئے مغفرت اور نجات کی گارنٹی ہے اس لیے نصاریٰ نے ان باتوں کو بغیر تحقیق کے قبول کر رکھا ہے اتوار کے دن پادری کہہ دیتا ہے کہ میں نے اس ہفتہ کے سب گناہ معاف کردیے۔ یہ کیسی خلاف عقل بات ہے کہ نافرمانی کی ہے خدائے پاک کی اور معاف کر رہی ہے مخلوق۔ ان پادریوں کو گناہ کے معاف کرنے میں خداوند تعالیٰ کا نائب مانتے ہیں۔ ان کو یہ نیابت کہاں سے ملی کس نے ان کو نائب بنایا ؟ ہر عقلمند کے سامنے یہ سوالات آتے ہیں۔ یہ سب کچھ نصاریٰ کا اپنا بنایا ہوا دین ہے، اور اوپر سے اس دھوکہ اور آرزو میں پڑے ہوئے ہیں کہ صرف ہماری ہی نجات ہوگی اور ہم ہی جنتی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کوئی بات بلا دلیل قبول نہیں ہوتی اور دنیا میں سب اسی قانون پر چلتے ہیں، لیکن آخرت کے بارے میں جہاں دوزخ کے دائمی عذاب سے نجات پانے کی ضرورت ہوگی۔ صرف خوش فہمی اور گمان اور خیالات اور اوھام اور آرزوؤں پر اکتفاء کئے ہوئے ہیں۔ ھد اھم اللہ تعالیٰ ۔ یہود و نصاریٰ کے علاوہ کفار کی دوسری قومیں بھی اپنے بارے میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں اور ان سب نے محض جھوٹی آرزوؤں کا سہارا لے رکھا ہے۔ ان کے پاس ان کے دین کے حق ہونے کی اور اس بات کی کہ ان کا دین یوم آخرت میں ذریعہ نجات بنے گا کوئی دلیل نہیں ہے اور مشرکوں کی بیوقوفی دیکھو کہ پیدا کیا اللہ نے اور کھانے کو وہی دیتا ہے اور انسانوں کی ضرورت کا ہر سامان اسی نے پیدا فرمایا ہے لیکن پر ستش اور پوجا اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی کرتے ہیں اور اس میں نجات سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو سمجھ دے۔

    Maulana Aashiq illahi Madni (intro)

    نام : انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
    مترجم و مفسر : حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہی مہاجر مدنی (رح)
    ناشر : نوید احمد خاں۔ مکتبہ زکریا۔ رحمان پلازہ مچھلی منڈی اردو بازار لاہور۔
    زیر نظر نسخہ : اشاعت اول۔ 2009 ء۔ 1430 ھ
    کتاب کا مختصر تعارف :
    " ایزی قرآن و حدیث " میں شامل چھ جلدوں پر مشتمل ایک اہم اردو تفسیر حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری (رح) کی بھی ہے۔ اس کا مختصر تعارف ، امتیازی خصوصیات اور سبب تالیف انہی کے اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے :
    " اما بعد ! 1374 ھ یا 1375 ھ کی بات ہے کہ راقم الحروف کلکتہ میں مقیم تھا۔ وہاں میعادی بخار میں مبتلا ہوگیا اور شدت تکلیف کے باعث ایک رات ایسی گزری کہ صبح تک زندہ رہ جانے کی امید نہ تھی، میں نے اللہ جل شانہ سے ناز کے انداز میں عرض کردیا کہ اے اللہ ! میں ابھی مر رہا ہوں حالانکہ میں نے ابھی تفسیر بھی نہیں لکھی، اللہ جل شانہ کا فضل ہوا کہ میں اچھا ہوگیا، اور اس کے بعد سے کبھی شدید بیماری میں بھی مبتلا نہیں ہوا، لیکن تدریسی مشاگل کے باعث اور دوسری چھوٹی موٹی تالیفات میں لگنے کی وجہ سے تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں آیا، اب جبکہ عمر ستر سال کے قریب پہنچ گئی تو موت کا ڈر لاحق ہوا، اور ساتھ یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ تفسیر لکھنے کا وعدہ جو اللہ جل شانہ سے کیا تھا وہ پورا کرنا چاہیے، تفسیر لکھنا شروع کردیا، مجھے علم بھی زیادہ نہیں ہے، جگہ جگہ مشکلات پیش آئیں اللہ جل شانہ سے دعائیں کی، مشکلات حل ہوتی گئیں اور برابر شرح صدر ہوتا گیا اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ اردو میں اکابر کی متعدد تفسیریں موجود ہیں تجھے نئی تفسیر لکھنے کی کیا ضرورت تھی ؟ تو میں اس کا جواب دینے سے قاصر ہوں البتہ مجھے اپنے طور پر اس بات کی خوشی ہے کہ میری عمر کے آخری چند سال قرآن کریم کی خدمت میں خرچ ہوگئے، عام فہم اردو زبان میں شرح اور بسط کے ساتھ قرآن مجید کے معانی اور مطالب بیان کردئیے ہیں اور ساتھ ہی مسلمانوں کو جگہ جگہ جھنجھوڑا بھی ہے کہ قرآن مجید کا تم سے کیا مطالبہ ہے اور تمہاری اجتماعی وانفرادی زندگی کس رخ پر ہے، کوشش کی ہے کہ تفسیر و حدیث کے اصل ماخذ کی طرف رجوع کیا جائے، اور تفسیر القرآن بالقرآن، اور تفسیر القرآن بالحدیث کو اختیار کیا جائے۔ یہ تفسیر انشاء اللہ ہر طبقہ کے مسلمانوں کے لیے مفید ہوگی۔ لیکن خصوصیت کے ساتھ ترجمہ اور تفسیر پڑھنے والے طلبہ کی زیادہ رعایت کی گئی ہے۔ سبب نزول لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ اور کوشش کی گئی ہے کہ ترجمہ تحت اللفظ ہو اور بامحاورہ بھی، میری کوشش انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہے۔ اللہ جل شانہ سے امید کرتا ہوں کہ اس تفسیر کو شرف قبولیت بخشے، اور اپنے بندوں میں بھی قبولیت عامہ عطا فرمائے ۔ آمین
    کچھ مصنف کے بارے میں
    حضرت مولانا عاشق الہی بلند شہری مہاجر مدنی ، اتر پر دیش، انڈیا کے ایک شہر بلند شہر میں ، 1343 ھجری میں پیدا ہوئے ۔
    آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ امدادیہ مرادآباد اور جامی مسجد علی گڑھ میں مکمل کی۔
    مکمل دینی تعلیم مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے حاصل کی۔
    آپ نے مدرسہ حیات العلوم فیروز پور اور کلکتہ کے کئی مدارس میں تدریس کی خدمت سر انجام دی۔
    بعد ازاں ، مفتی محمد شفیع (رح) کی درخواست پر دارالعلوم کراچی تشریف لے آئے ۔ اور یہاں کئی سال تک شیخ الحدیث ، شیخ التفسیر کے طور پر تدریس کی، اور دارالافتاء میں بھی نمایاں کام کیا۔
    چند سال بعد آپ مدینہ منورہ منتقل ہوگئے جہاں آپ نے اپنی زندگی کے آخری 25 سال گزارے ۔
    آپ کی وفات 1999 میں ہوئی اور آپ جنت البقیع میں مدفون ہیں۔
    آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں سے مشہور کتب ۔ انوار البیان، زاد الطالبین ، فوائد الثنیہ فی شرح علوم النبویہ اور تسہیل الضروری شرح قدوری ہیں۔

    Jawahir ur Quran
    by Moulana Ghulamullah Khan

    212 پانچ شکوے ۔ پہلا شکوہ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آخرت میں نجات صرف یہودیوں کی ہوگی اور عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ ان کے بغیر جنت میں کوئی نہیں جائے گا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے گناہوں کا کفارہ اور نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ اور یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو۔ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ وہ پیر زادے اور پیغمبر زادے ہیں۔ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لیے جنت صرف انہی کے لیے ہے۔ درحقیقت یہود ونصاری اس دعویٰ سے اسلام پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور لوگوں کے دلوں میں اسلام سے برگشتگی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ نجات تو صرف ان کے دین سے وابستہ ہے۔ لہذا ان کے دین کی موجودگی میں دین اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ آگے اس دعویٰ کی تردید ہے۔ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۔ امانی کی تحقیق پہلے گذر چکی ہے کہ اس سے مراد ان کی باطل اور جھوٹی خواہشات ہیں اور ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں ای شھواتھم الباطلۃ التی تمنوھا (معالم و خازن ص 83 ج 1) یعنی یہ محض آرزوئیں ہی آرزوئیں ہیں قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔ یہود ونصاری کی تبکیت اور انہیں لاجواب کرنے کے لیے ان سے ان کے دعویٰ پر دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے یعنی اگر تم اپنے مذکورہ دعویٰ میں سچے ہو تو اس پر کوئی دلیل پر یش کرو۔ اس کے بعد نجات اخروی کا اصل قانون بیان فرمایا ہے۔

    Moulana Ghulamullah Khan (intro)

    حضرت مولانا غلام اللہ خان
    حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
    خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔

    Kashf ur Rahman
    by Ahmed Saeed Dehlvi

    Ahmed Saeed Dehlvi (intro)

    نام : کشف الرحمن فی تفسیر القرآن
    مصنف : حضرت مولانا احمد سعید دہلوی (رح)
    ناشر : مکتبہ رشیدیہ۔ کراچی
    یہ تفسیر مصنف کی اٹھارہ سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔ اس کے مصنف پاک و ہند کے مشہور عالم سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی (رح) ہیں۔ ترجمہ کا نام کشف الرحمن اور تفسیر کا نام تیسیر القرآن ہے۔ موصوف کی یہ تفسیر شستہ زبان، عام فہم طرز اداء اور اپنی خصوصیات کے اعتبار سے نہایت قابل قدر ہے، اور ممتاز حیثیت رکھتی ہے۔ مصنف نے اس ترجمہ اور تفسیر کی تالیف میں بہت محنت کی ہے اور بڑی بڑی معتبر کتابوں کی زمانہ دراز تک ورق گردانی کرکے یہ ذخیرہ جمع کیا ہے اور اس کو ایسے طریقے پر مرتب کیا ہے کہ ہر طقبہ کے لوگ اس سے مستفید ہوسکیں، یہ اہل علم کے لیے بھی مفید ہے اور عوام کے لیے بھی، بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ زبان کو آسان اور سہل کرنے کے ساتھ ساتھ سلفِ صالحین کے مسلک کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور زبان کی شگفتگی کو بھی برقرار رکھا۔
    مصنف کا تعارف :
    سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعید دہلوی ربیع الثانی 1306 ہجری بمطابق دسمبر 1888 ہجری میں پیدا ہوئے۔
    ابتدائی تعلیم مولانا عبدالمجید مصطفیٰ آبادی مرحوم سے حاصل کی، اور تکمیل حفظِ قرآن کی دستار بندی مدرسہ حسینیہ دلی میں ہوئی۔
    اعلی تعلیم مدرسہ امینیہ میں حاصل کی۔ اور اس کے بعد مدرسہ امینیہ میں کئی برس تک تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ اور دین کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے ۔
    آپ جمعیت العلماء ہند کے صدر ، عالم دین اور ایک محب وطن شخصیت تھے۔
    1920 ء سے قومی تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور آٹھ مرتبہ جیل گئے۔ خوش بیان مقرر تھے اور سبحان الہند کہلاتے تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی کی وفات کے بعد جمعیت العلماء ہند کے صدر مقرر ہوئے۔ اس سے قبل آپ اس جماعت کے ناظم اعلٰی تھے۔ دینی اور علمی موضوعات پر تقریباً بیس کتابیں یادگار چھوڑیں۔
    آپ کی تصنیفات و تالیفات میں ١۔ کشف الرحمن فی ترجمۃ القرآن۔ ٢۔ تقاریر سیرت۔ ٣۔ خدا کی باتیں۔ ٤۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں۔ ٥، معجزاتِ رسول۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔
    آپ کو وفات 3 جمادی الثانی 1379 ہجری بمطابق دسمبر 1959 ء میں ہوئی۔

    Website Developed by TechWare House
    Copyright © 2018-20