آیت ١١١ (وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ الاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ط) جب یہ نئی امت مسلمہ تشکیل پا رہی تھی تو یہودی اور نصرانی ‘ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں جمع ہوگئے۔ انہوں نے مل کر یہ کہنا شروع کیا کہ جنت میں کوئی ہرگز نہیں داخل ہوگا سوائے اس کے جو یا تو یہودی ہو یا نصرانی ہو۔ اس طرح کی مذہبی جتھے بندیاں ہمارے ہاں بھی بن جاتی ہیں۔ مثلاً اہل حدیث کے مقابلے میں بریلوی اور دیوبندی جمع ہوجائیں گے ‘ اگرچہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیر اپنی جگہ ہے۔ جب ایک مشترکہ دشمن نظرآتا ہے تو پھر وہ لوگ جن کے اپنے اندر بڑے اختلافات ہوتے ہیں وہ بھی ایک متحدہّ محاذ بنا لیتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے اس مشترکہ بیان کے جواب میں فرمایا : (تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ ط) یہ ان کی خواہشات ہیں ‘ من گھڑت خیالات ہیں ‘ خوش نما آرزوئیں (wishful thinkings) ہیں۔ (قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) ۔ کسی آسمانی کتاب سے دلیل لاؤ۔ کہیں تورات میں لکھا ہو یا انجیل میں لکھا ہو تو ہمیں دکھا دو ! اب یہاں پر پھر ایک عالمگیر صداقت (universal truth) بیان ہو رہی ہے :
212 پانچ شکوے ۔ پہلا شکوہ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ آخرت میں نجات صرف یہودیوں کی ہوگی اور عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ ان کے بغیر جنت میں کوئی نہیں جائے گا۔ عیسائی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے گناہوں کا کفارہ اور نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ اور یہودی حضرت عزیر (علیہ السلام) کو۔ دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ وہ پیر زادے اور پیغمبر زادے ہیں۔ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لیے جنت صرف انہی کے لیے ہے۔ درحقیقت یہود ونصاری اس دعویٰ سے اسلام پر ضرب لگانا چاہتے تھے اور لوگوں کے دلوں میں اسلام سے برگشتگی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ نجات تو صرف ان کے دین سے وابستہ ہے۔ لہذا ان کے دین کی موجودگی میں دین اسلام کی کیا ضرورت ہے۔ آگے اس دعویٰ کی تردید ہے۔ تِلْكَ اَمَانِيُّھُمْ ۔ امانی کی تحقیق پہلے گذر چکی ہے کہ اس سے مراد ان کی باطل اور جھوٹی خواہشات ہیں اور ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں ای شھواتھم الباطلۃ التی تمنوھا (معالم و خازن ص 83 ج 1) یعنی یہ محض آرزوئیں ہی آرزوئیں ہیں قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ۔ یہود ونصاری کی تبکیت اور انہیں لاجواب کرنے کے لیے ان سے ان کے دعویٰ پر دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے یعنی اگر تم اپنے مذکورہ دعویٰ میں سچے ہو تو اس پر کوئی دلیل پر یش کرو۔ اس کے بعد نجات اخروی کا اصل قانون بیان فرمایا ہے۔