• TAFASEER
      OF SURAH-2 VERSE-40
    • Tafaseer
    • Search Quran
    • Register/Login
  • TrueOrators.com
    Islamic Search Engine
    • اللہ
      Name of Allah
    • The Noble Quran
      • by Parah
      • by Surah
      • by Topics
      • by Arabic Word
    • Hadith Collection
      • Sahih Bukhari
      • Sahih Muslim
      • Jam e Tirmazi
      • Sunnan Abu Dawood
      • Sunnan Nisai
      • Sunnan Ibn e Maja
      • Silsila Sahih
      • Musnad Ahmad
      • Muwtta Amam Malik
      • Mishkat
    • PDF Books
    • Articles
    • Orators of Islam

    • Contributors
    • Developers
    • Feedback
    • Introduction

    • Subscribe to Channel
    • Like us on Facebook
    • Follow us on Twitter
  • Report
    this page
    Leave a
    feedback
    Contact with
    developers
    Report this page
    Register / Login
    Select Tafaseer to display
    Surat ul Baqara
    Parah: 1Surah: 2Verse: 40

    سورة البقرة

    یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ ﴿۴۰﴾

    O Children of Israel, remember My favor which I have bestowed upon you and fulfill My covenant [upon you] that I will fulfill your covenant [from Me], and be afraid of [only] Me.

    اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو ۔
    Copy Arabic Copy English Copy Urdu Copy All Languages
    Share on Facebook Share on Twitter Share on Whatsapp
    Create Picture for Post
    • Tafaseer
    • Translations
    • Word by Word
    • Root Words
    Bayan ul Quran
    by Dr Israr Ahmed

    اب یہاں سے بنی اسرائیل سے خطاب شروع ہو رہا ہے۔ یہ خطاب پانچویں رکوع سے چودہویں رکوع تک ‘ مسلسل دس رکوعات پر محیط ہے۔ البتہ ان میں ایک تقسیم ہے۔ پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے ‘ اور جب کسی گروہ کو دعوت دی جاتی ہے تو تشویق و ترغیب ‘ دلجوئی اور نرمی کا انداز اختیار کیا جاتا ہے ‘ جو دعوت کے اجزاء لاینفک ہیں۔ اس انداز کے بغیر دعوت مؤثرّ نہیں ہوتی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ سات آیات (پانچواں رکوع) ان دس رکوعوں کے لیے بمنزلۂ فاتحہ ہیں۔ بنی اسرائیل کی حیثیت سابقہ امت مسلمہ کی تھی ‘ جن کو یہاں دعوت دی جا رہی ہے۔ وہ بھی مسلمان ہی تھے ‘ لیکن محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر کے کافر ہوگئے۔ ورنہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے تھے ‘ شریعت ان کے پاس تھی ‘ بڑے بڑے علماء ان میں تھے ‘ علم کا چرچا ان میں تھا۔ غرضیکہ سب کچھ تھا۔ یہاں ان کو دعوت دی جا رہی ہے۔ اس سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آج مسلمانوں میں ‘ جو اپنی حقیقت کو بھول گئے ہیں ‘ اپنے فرض منصبی سے غافل ہوگئے ہیں اور دنیا کی دیگر قوموں کی طرح ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں ‘ اگر کوئی ایک داعی گروہ کھڑا ہو تو ظاہر بات ہے سب سے پہلے اسے اسی امت کو دعوت دینی ہوگی۔ اس لیے کہ دنیا تو اسلام کو اسی امت کے حوالے سے پہچانے گی (Physician heals thyself) ۔ پہلے یہ خود ٹھیک ہو اور صحیح اسلام کا نمونہ پیش کرے تو دنیا کو دعوت دے سکے گی کہ آؤ دیکھو یہ ہے اسلام ! چناچہ ان کو دعوت دینے کا جو اسلوب ہونا چاہیے وہ اس اسلوب کا عکس ہوگا جو ان سات آیات میں ہمارے سامنے آئے گا۔ آیت ٤٠ (یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ ) ” بنی اسرائیل “ کی ترکیب کو سمجھ لیجیے کہ یہ مرکب اضافی ہے۔ ” اسر “ کا معنی ہے بندہ یا غلام۔ اسی سے ” اسیر “ بنا ہے جو کسی کا قیدی ہوتا ہے۔ اور لفظ ” ئیل “ عبرانی میں اللہ کے لیے آتا ہے۔ چناچہ اسرائیل کا ترجمہ ہوگا ” عبداللہ “ یعنی اللہ کا غلام ‘ اللہ کی اطاعت کے قلادے کے اندر بندھا ہوا۔ ” اسرائیل “ لقب ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا۔ ان کے بارہ بیٹے تھے اور ان سے جو نسل چلی وہ بنی اسرائیل ہے۔ ان ہی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی اور انہیں تورات دی گئی۔ پھر یہ ایک بہت بڑی امت بنے۔ قرآن مجید کے نزول کے وقت تک ان پر عروج وزوال کے چار ادوار آ چکے تھے۔ دو مرتبہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارشیں ہوئیں اور انہیں عروج نصیب ہوا ‘ جبکہ دو مرتبہ دنیا پرستی ‘ شہوت پرستی اور اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دینے کی سزا میں ان پر اللہ کے عذاب کے کوڑے برسے۔ اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں آئے گا۔ اس وقت جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا وہ اپنے اس زوال کے دور میں تھے۔ حال یہ تھا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہی ان کا ” معبد ثانی “ (Second Temple) بھی منہدم کیا جا چکا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو ہیکل سلیمانی بنایا تھا ‘ جس کو یہ ” معبدِ اوّل “ (First Temple) کہتے ہیں ‘ اسے بخت نصر (Nebukadnezar) نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) سے بھی چھ سو سال پہلے گرا دیا تھا۔ اسے انہوں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا جو ” معبد ثانی “ کہلاتا تھا۔ لیکن ٧٠ عیسوی میں محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پانچ سو سال پہلے رومیوں نے حملہ کر کے یروشلم کو تباہ و برباد کردیا ‘ یہودیوں کا قتل عام کیا اور جو ” معبد ثانی “ انہوں نے تعمیر کیا تھا اسے بھی مسمار کردیا ‘ جو اب تک گرا پڑا ہے ‘ صرف ایک دیوار گریہ (Veiling Wall) باقی ہے جس کے پاس جا کر یہودی ماتم اور گریہ وزاری کرلیتے ہیں ‘ اور اب وہ اسے سہ بارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ چناچہ ان کے ” معبد ثالث “ (Third Temple) کے نقشے بن چکے ہیں ‘ اس کا ابتدائی خاکہ تیار ہوچکا ہے۔ بہرحال جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت یہ بہت ہی پستی میں تھے۔ اس وقت ان سے فرمایا گیا : ” اے بنی اسرائیل ! ذرا یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا تھا “۔ وہ انعام کیا ہے ؟ میں نے تم کو اپنی کتاب دی ‘ نبوت سے سرفراز فرمایا ‘ اپنی شریعت تمہیں عطا فرمائی۔ تمہارے اندر داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) جیسے بادشاہ اٹھائے ‘ جو بادشاہ بھی تھے ‘ نبی بھی تھے۔ (وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ج) بنی اسرائیل سے نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ تورات میں کتاب استثناء یا سفر استثناء (Deuteronomy) کے اٹھارہویں باب کی آیات ١٨۔ ١٩ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کر کے یہ الفاظ فرمائے : ” میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا ‘ نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ “ یہ گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کو بتایا جا رہا تھا کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیں گے اور تمہیں ان کی نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اس کا تفصیلی ذکر سورة الاعراف میں آئے گا۔ یہاں فرمایا کہ تم میرا عہد پورا کرو ‘ میرے اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو تسلیم کرو ‘ اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ ‘ اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدا پر لبیک کہو تو میرے انعام و اکرام مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔ (وَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ )

    Dr Israr Ahmed (intro)

    1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
    ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
    آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
    تعلیمی پس منظر
    قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
    سیاسی زندگی[ترمیم ]
    دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
    بحیثیت اسلامی اسکالر
    تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے ‍قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
    وفات
    ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

    Jawahir ur Quran
    by Moulana Ghulamullah Khan

    96 ۔ اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں quot; اللہ کا بندہ quot; یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ اور بنی اسرائیل سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد مراد ہے۔ اور یہاں بنی اسرائیل سے ان یہودیوں کو خطاب کیا گیا ہے جو مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ پندونصیحت سے پہلے انعامات کا ذکر نہایت ہی مؤثر حکمت عملی ہے اور یہاں نعمت ہم جنس ہے اور اس سے مراد وہ مادی اور روحانی انعامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ مثلاً دولت، حکومت، نبوت اور دوسرے وقتی انعامات جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ( سورة مائدہ) ان انعامات کی کسی قدر تفصیل آگے آرہی ہے۔ 97 ۔ یہ دوسرا امر ہے یہاں لفظ عہد دونوں جگہ مصدر ہے اور دونوں جگہ اپنے مفعول کی جانب مضاف ہے اور فاعل محذوف ہے۔ اي وَاَوْفُوْا بِعَھْدِکُمْ اِيَّايَ اُوْفِ بِعَھْدِيْ اِيَّاکُمْ یعنی جو عہد تم نے میرے ساتھ کیا تھا تم اسے پورا کرو تو جو عہد میں نے تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے میں اسے پورا کروں گا۔ وھو المفھوم من کلام قتادۃ و مجاھد ان کلیھما مضاف الی المفعول۔ ان فسر الایفاء باتمام العھد تکون الاضافۃ الی المفعول فی الموضعین (روح ص 242 ج 1) بنی اسرائیل نے تو اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ بنی اسماعیل میں پیدا ہونے والے آخری نبی پر ایمان لائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ معاف کرنے اور انہیں جنت میں داخل کرنے کا عہد کیا تھا۔ چناچہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے۔ ان اللہ تعالیٰ کان عھدا الی بنی اسرائیل فی التورۃ انی باعث من بنی اسماعیل نبیا امیا فمن تبعہ وصدق بالنور الذی یاتی بہ ای بالقران غفرت ذنبہ وادخلتہ الجنۃ الخ (کبیر ص 484 ج 1، معالم ص 44 ج 1) یا مراد وہ عہد ہے جو آیت ذیل میں مذکور ہے۔ ۧوَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا ۭوَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ ۭلَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ ۚ۔ (سور مائدہ رکوع 3) ۔ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ ۔ یہ تیسرا امر ہے۔ جب تمہارا منعم حقیقی اور محسن تحقیقی میں ہی ہوں تو صرف مجھ ہی سے ڈرو، اگر تم مجھ سے ڈر کر میرے احکام کی تعمیل کرنے لگ جاؤگے تو کوئی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔

    Moulana Ghulamullah Khan (intro)

    حضرت مولانا غلام اللہ خان
    حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
    خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔

    Website Developed by TechWare House
    Copyright © 2018-20