اب یہاں سے بنی اسرائیل سے خطاب شروع ہو رہا ہے۔ یہ خطاب پانچویں رکوع سے چودہویں رکوع تک ‘ مسلسل دس رکوعات پر محیط ہے۔ البتہ ان میں ایک تقسیم ہے۔ پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے ‘ اور جب کسی گروہ کو دعوت دی جاتی ہے تو تشویق و ترغیب ‘ دلجوئی اور نرمی کا انداز اختیار کیا جاتا ہے ‘ جو دعوت کے اجزاء لاینفک ہیں۔ اس انداز کے بغیر دعوت مؤثرّ نہیں ہوتی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ سات آیات (پانچواں رکوع) ان دس رکوعوں کے لیے بمنزلۂ فاتحہ ہیں۔ بنی اسرائیل کی حیثیت سابقہ امت مسلمہ کی تھی ‘ جن کو یہاں دعوت دی جا رہی ہے۔ وہ بھی مسلمان ہی تھے ‘ لیکن محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر کے کافر ہوگئے۔ ورنہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے تھے ‘ شریعت ان کے پاس تھی ‘ بڑے بڑے علماء ان میں تھے ‘ علم کا چرچا ان میں تھا۔ غرضیکہ سب کچھ تھا۔ یہاں ان کو دعوت دی جا رہی ہے۔ اس سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آج مسلمانوں میں ‘ جو اپنی حقیقت کو بھول گئے ہیں ‘ اپنے فرض منصبی سے غافل ہوگئے ہیں اور دنیا کی دیگر قوموں کی طرح ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں ‘ اگر کوئی ایک داعی گروہ کھڑا ہو تو ظاہر بات ہے سب سے پہلے اسے اسی امت کو دعوت دینی ہوگی۔ اس لیے کہ دنیا تو اسلام کو اسی امت کے حوالے سے پہچانے گی (Physician heals thyself) ۔ پہلے یہ خود ٹھیک ہو اور صحیح اسلام کا نمونہ پیش کرے تو دنیا کو دعوت دے سکے گی کہ آؤ دیکھو یہ ہے اسلام ! چناچہ ان کو دعوت دینے کا جو اسلوب ہونا چاہیے وہ اس اسلوب کا عکس ہوگا جو ان سات آیات میں ہمارے سامنے آئے گا۔ آیت ٤٠ (یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ ) ” بنی اسرائیل “ کی ترکیب کو سمجھ لیجیے کہ یہ مرکب اضافی ہے۔ ” اسر “ کا معنی ہے بندہ یا غلام۔ اسی سے ” اسیر “ بنا ہے جو کسی کا قیدی ہوتا ہے۔ اور لفظ ” ئیل “ عبرانی میں اللہ کے لیے آتا ہے۔ چناچہ اسرائیل کا ترجمہ ہوگا ” عبداللہ “ یعنی اللہ کا غلام ‘ اللہ کی اطاعت کے قلادے کے اندر بندھا ہوا۔ ” اسرائیل “ لقب ہے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا۔ ان کے بارہ بیٹے تھے اور ان سے جو نسل چلی وہ بنی اسرائیل ہے۔ ان ہی میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی اور انہیں تورات دی گئی۔ پھر یہ ایک بہت بڑی امت بنے۔ قرآن مجید کے نزول کے وقت تک ان پر عروج وزوال کے چار ادوار آ چکے تھے۔ دو مرتبہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارشیں ہوئیں اور انہیں عروج نصیب ہوا ‘ جبکہ دو مرتبہ دنیا پرستی ‘ شہوت پرستی اور اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دینے کی سزا میں ان پر اللہ کے عذاب کے کوڑے برسے۔ اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں آئے گا۔ اس وقت جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا وہ اپنے اس زوال کے دور میں تھے۔ حال یہ تھا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے ہی ان کا ” معبد ثانی “ (Second Temple) بھی منہدم کیا جا چکا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو ہیکل سلیمانی بنایا تھا ‘ جس کو یہ ” معبدِ اوّل “ (First Temple) کہتے ہیں ‘ اسے بخت نصر (Nebukadnezar) نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) سے بھی چھ سو سال پہلے گرا دیا تھا۔ اسے انہوں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا جو ” معبد ثانی “ کہلاتا تھا۔ لیکن ٧٠ عیسوی میں محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پانچ سو سال پہلے رومیوں نے حملہ کر کے یروشلم کو تباہ و برباد کردیا ‘ یہودیوں کا قتل عام کیا اور جو ” معبد ثانی “ انہوں نے تعمیر کیا تھا اسے بھی مسمار کردیا ‘ جو اب تک گرا پڑا ہے ‘ صرف ایک دیوار گریہ (Veiling Wall) باقی ہے جس کے پاس جا کر یہودی ماتم اور گریہ وزاری کرلیتے ہیں ‘ اور اب وہ اسے سہ بارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ چناچہ ان کے ” معبد ثالث “ (Third Temple) کے نقشے بن چکے ہیں ‘ اس کا ابتدائی خاکہ تیار ہوچکا ہے۔ بہرحال جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت یہ بہت ہی پستی میں تھے۔ اس وقت ان سے فرمایا گیا : ” اے بنی اسرائیل ! ذرا یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا تھا “۔ وہ انعام کیا ہے ؟ میں نے تم کو اپنی کتاب دی ‘ نبوت سے سرفراز فرمایا ‘ اپنی شریعت تمہیں عطا فرمائی۔ تمہارے اندر داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) جیسے بادشاہ اٹھائے ‘ جو بادشاہ بھی تھے ‘ نبی بھی تھے۔ (وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ج) بنی اسرائیل سے نبی آخر الزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ تورات میں کتاب استثناء یا سفر استثناء (Deuteronomy) کے اٹھارہویں باب کی آیات ١٨۔ ١٩ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کر کے یہ الفاظ فرمائے : ” میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا ‘ نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ “ یہ گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی امت کو بتایا جا رہا تھا کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئیں گے اور تمہیں ان کی نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اس کا تفصیلی ذکر سورة الاعراف میں آئے گا۔ یہاں فرمایا کہ تم میرا عہد پورا کرو ‘ میرے اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ کو تسلیم کرو ‘ اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ ‘ اس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صدا پر لبیک کہو تو میرے انعام و اکرام مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔ (وَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ )
96 ۔ اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں quot; اللہ کا بندہ quot; یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ اور بنی اسرائیل سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد مراد ہے۔ اور یہاں بنی اسرائیل سے ان یہودیوں کو خطاب کیا گیا ہے جو مدینہ اور اس کے قرب و جوار میں آباد تھے۔ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ پندونصیحت سے پہلے انعامات کا ذکر نہایت ہی مؤثر حکمت عملی ہے اور یہاں نعمت ہم جنس ہے اور اس سے مراد وہ مادی اور روحانی انعامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر کیے۔ مثلاً دولت، حکومت، نبوت اور دوسرے وقتی انعامات جیسا کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَاۗءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ ( سورة مائدہ) ان انعامات کی کسی قدر تفصیل آگے آرہی ہے۔ 97 ۔ یہ دوسرا امر ہے یہاں لفظ عہد دونوں جگہ مصدر ہے اور دونوں جگہ اپنے مفعول کی جانب مضاف ہے اور فاعل محذوف ہے۔ اي وَاَوْفُوْا بِعَھْدِکُمْ اِيَّايَ اُوْفِ بِعَھْدِيْ اِيَّاکُمْ یعنی جو عہد تم نے میرے ساتھ کیا تھا تم اسے پورا کرو تو جو عہد میں نے تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے میں اسے پورا کروں گا۔ وھو المفھوم من کلام قتادۃ و مجاھد ان کلیھما مضاف الی المفعول۔ ان فسر الایفاء باتمام العھد تکون الاضافۃ الی المفعول فی الموضعین (روح ص 242 ج 1) بنی اسرائیل نے تو اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ بنی اسماعیل میں پیدا ہونے والے آخری نبی پر ایمان لائیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہ معاف کرنے اور انہیں جنت میں داخل کرنے کا عہد کیا تھا۔ چناچہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے۔ ان اللہ تعالیٰ کان عھدا الی بنی اسرائیل فی التورۃ انی باعث من بنی اسماعیل نبیا امیا فمن تبعہ وصدق بالنور الذی یاتی بہ ای بالقران غفرت ذنبہ وادخلتہ الجنۃ الخ (کبیر ص 484 ج 1، معالم ص 44 ج 1) یا مراد وہ عہد ہے جو آیت ذیل میں مذکور ہے۔ ۧوَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِ سْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا ۭوَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ ۭلَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَـنًا لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَلَاُدْخِلَنَّكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْھٰرُ ۚ۔ (سور مائدہ رکوع 3) ۔ وَاِيَّاىَ فَارْھَبُوْنِ ۔ یہ تیسرا امر ہے۔ جب تمہارا منعم حقیقی اور محسن تحقیقی میں ہی ہوں تو صرف مجھ ہی سے ڈرو، اگر تم مجھ سے ڈر کر میرے احکام کی تعمیل کرنے لگ جاؤگے تو کوئی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔