And We have sent you not but as a mercy for the `Alamin. Here Allah tells us that He has made Muhammad a mercy to the `Alamin, i.e., He sent him as a mercy for all of them (peoples), so whoever accepts this mercy and gives thanks for this blessing, will be happy in this world and in the Hereafter. But whoever rejects it and denies it, will lose out in this world and in the Hereafter, as Allah says: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُواْ نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّواْ قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِيْسَ الْقَرَارُ Have you not seen those who have changed the blessings of Allah into disbelief, and caused their people to dwell in the house of destruction Hell, in which they will burn, -- and what an evil place to settle in! (14:28-29) And Allah says, describing the Qur'an: قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدًى وَشِفَأءٌ وَالَّذِينَ لاَ يُوْمِنُونَ فِى ءَاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُوْلَـيِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ Say: "It is for those who believe, a guide and a healing. And as for those who disbelieve, there is heaviness in their ears, and it is blindness for them. They are those who are called from a place far away." (41:44) Muslim reports in his Sahih: Ibn Abi `Umar told us, Marwan Al-Fazari told us, from Yazid bin Kisan, from Ibn Abi Hazim that Abu Hurayrah said that; it was said, "O Messenger of Allah, pray against the idolators." He said: إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَة I was not sent as a curse, rather I was sent as a mercy. This was recorded by Muslim. Imam Ahmad recorded that `Amr bin Abi Qurrah Al-Kindi said: "Hudhayfah was in Al-Mada'in and he was mentioning things that the Messenger of Allah had said. Hudhayfah came to Salman and Salman said: `O Hudhayfah, the Messenger of Allah (would sometimes be angry and would speak accordingly, and would sometimes be pleased and would speak accordingly. I know that the Messenger of Allah) addressed us and said: أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً فِي غَضَبِي أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فَإِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ ادَمَ أَغْضَبُ كَمَا تَغْضَبُونَ إِنَّمَا بَعَثَنِي اللهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَاجْعَلْهَا صَلَةً عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَة Any man of my Ummah whom I have insulted or cursed when I was angry -- for I am a man from among the sons of Adam, and I get angry just as you do. But Allah has sent me as a Mercy to the Worlds, so I will make that (my anger) into blessings for him on the Day of Resurrection." This was also recorded by Abu Dawud from Ahmad bin Yunus from Za'idah. It may be asked: what kind of mercy do those who disbelieve in him get? The answer is what Abu Jafar bin Jarir recorded from Ibn Abbas concerning the Ayah: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (And We have sent you not but as a mercy for the `Alamin), He said, "Whoever believes in Allah and the Last Day, mercy will be decreed for him in this world and in the Hereafter; whoever does not believe in Allah and His Messenger, will be protected from that which happened to the nations of earthquakes and stoning."
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لے آئے گا اس نے گویا اس رحمت کو قبول کرلیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ نتیجتًا دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوگا اور اور چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورے جہان کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے آئے ہیں بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے یہ امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کردی گئی جیسے پچھلی قومیں اور امتیں حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں امت محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے) پر اس طرح کا کلی عذاب نہیں آئے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بد دعا نہ کرنا یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا ایک حصہ تھا انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ (صحیح مسلم) اسی طرح غصے میں کسی مسلمان کو لعنت یا سب وشتم کرنے کو بھی قیامت والے دن رحمت کا باعث قرار دینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا حصہ ہے ( مسند احمد) اسی لیے ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما رحمۃ مھداۃ (صحیح الجامع الصغیر) میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہل جہان کے لیے ایک ہدیہ ہے۔
[٩٥] اس آیت کا دوسرا معنی یہ ہے کہ یہ جہان والوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو مبعوث فرمایا۔ مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ آپ کی ذات بابرکات اور آپ کی بعثت دراصل پوری نوع انسانی کے لئے رحمت ہے۔ آپ ہی کے ذریعہ غفلت میں پڑی ہوئی اور راہ بھٹی ہوئی انسانیت کو ایسا علم نصیب ہوا جو حق و باطل کی راہوں کو ممیز کرکے سیدھی راہ دکھلاتا اور اس پر چلاتا ہے۔ جس سے انسان نے دنیا کی زندگی اچھے طور پر گزارنے کے اصول اور ڈھنگ سیکھے۔ پھر اس راہ پر چلنے سے انسان کی اخروی زندگی بھی سنور جاتی ہے۔ آپ کی یہ مہربانی تو ان لوگوں پر تھی جو آپ پر ایمان لائے اور بدکرداروں اور کافروں کے لئے آپ کی ذات باعث رحمت تھی چناچہ ارشاد باری ہے (وَمَا كَان اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيْهِمْ ۭ وَمَا كَان اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ 33) 8 ۔ الانفال :33) یعنی جب تک آپ ان کافروں کے درمیان موجود ہیں اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا علاوہ ازیں آپ ہی کی دعا کی وجہ سے خسف اور مسخ اور بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے والے عذاب موقوف ہوئے اور مسلمانوں پر آپ کی رحمت کی داستان تو اتنی طویل ہے جس کا حصر یہاں ممکن نہیں۔ قرآن نے واضح الفاظ میں بتلا دیا کہ آپ مومنوں کے حق میں رحمت بھی تھے اور رحیم بھی۔ کفار مکہ آپ کی بعثت کو اپنے لئے ایک مصیبت سمجھتے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے اور باپ سے بیٹے کو اور بھائی سے بھائی کو غرض سب تو یہی رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے جدا کر رکھ دیا ہے۔ ان کے اسی قول کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نادانوں ! جس ہستی کو تم مصیبت سمجھ رہے ہو۔ مسلمان تو درکنار وہ تمہارے لئے بھی اللہ کی رحمت ہے۔ کیونکہ علوم نبوت اور تہذیب و انسانیت کے جو اصول وہ پیش کر رہا ہے ان سے سب مسلم و کافر اپنے اپنے مذاق کے موافق مستفید ہو رہے ہیں۔
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ : اعراب القرآن (قرآن کی ترکیب نحوی) کے موضوع پر لکھی ہوئی تقریباً تمام کتابوں میں ” رَحْمَةً “ کو ” اَرْسَلْنٰكَ “ کا مفعول لہ بیان کیا گیا ہے۔ بعض کتابوں میں دوسری تراکیب بھی بیان ہوئی ہیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ نحو کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ مفعول لہ جس فعل کی علت بیان کر رہا ہو اس فعل کا اور مفعول لہ کا فاعل ایک ہوتا ہے، مثلاً ” ضَرَبْتُ زَیْدًا تَأْدِیْبًا “ (میں نے زید کو ادب سکھانے کے لیے مارا) اس میں مارنے والا اور ادب سکھانے والا ایک ہی ہے، اس طرح یہاں بھیجنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے اور رحم کرنے والا بھی۔ چناچہ معنی یہ ہوگا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر رحم کرنے کے لیے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجنے کی وجہ اللہ تعالیٰ کا جہانوں پر رحم کرنا ہے۔ چناچہ شاہ ولی اللہ (رض) نے اس کا ترجمہ کیا ہے : ” ونفرستادیم ترا مگر ازروئے مہربانی برعالمہا “ (اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر جہانوں پر مہربانی کی وجہ سے) اور شاہ عبد القادر (رض) نے ترجمہ کیا ہے : ” اور تجھ کو جو ہم نے بھیجا سو مہر (یعنی مہربانی) کر کر جہان کے لوگوں پر۔ “ مفسر ابوالسعود نے فرمایا : ” أَيْ مَا أَرْسَلْنَاکَ بِمَا ذُکِرَ لِعِلَّۃٍ مِنَ الْعِلَلِ إِلاَّ لِرَحْمَتِنَا الْوَاسِعَۃِ لِلْعَالَمِیْنَ قَاطِبَۃً “ ” اور ہم نے تجھے مذکورہ وحی دے کر کسی بھی وجہ سے نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں پر اپنی وسیع رحمت کی وجہ سے۔ “ امام المفسرین طبری نے فرمایا : ” وَمَا أَرْسَلْنَاکَ یَا مُحَمَّدُ ! إِلاَّ رَحْمَۃً لِمَنْ أَرْسَلْنَاکَ إِلَیْہِ مِنْ خَلْقِيْ “ ” اور ہم نے اے محمد ! تجھے نہیں بھیجا مگر اپنی مخلوق میں سے ان لوگوں پر رحم کے لیے جن کی طرف ہم نے تجھے بھیجا ہے۔ “ پھر امام طبری نے ” رَحْمَةً “ کی تفسیر میں اس قول کو ترجیح دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجنے کی وجہ مومن و کافر سب پر رحم ہے کہ جو آپ پر ایمان لائے گا اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں رحمت لکھی جائے گی اور جو آپ پر ایمان نہیں لائے گا وہ دنیا میں ان عذابوں سے محفوظ رہے گا جو پہلی امتوں پر نبی کو جھٹلانے کی وجہ سے نازل ہوتے تھے، مثلاً زمین میں دھنس جانا، شکلیں بدل جانا وغیرہ۔ ایک ترکیب نحوی یہ ہے کہ ” رَحْمَةً “ حال بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔ جس طرح کہتے ہیں ” زَیدٌ عَدْلٌ“ کہ زید عدل ہے، یعنی اتنا عادل ہے گویا سراپا عدل ہے۔ پھر یہ ” اَرْسَلْنٰكَ “ میں ضمیر فاعل ” ہم “ سے بھی حال ہوسکتا ہے اور ” اَرْسَلْنٰكَ “ میں ضمیر ” کاف “ سے بھی۔ پہلی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس حال میں کہ ہم جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہیں۔ دوسری صورت میں معنی ہوگا کہ ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر اس حال میں کہ تو جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہے۔ پہلا معنی مفعول لہ والے معنی کے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہانوں پر رحم کی وجہ سے مبعوث کرنا اور اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حال میں بھیجنا کہ اس کی ذات پاک تمام جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہے، دونوں کا مفہوم ایک ہے جو سورة فاتحہ میں ” رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ “ اور ” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “ کے اکٹھے بیان سے واضح ہے۔ دوسرا معنی کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس حال میں بھیجا کہ آپ جہانوں کے لیے سراسر رحمت ہیں، بھی درست ہے کہ آپ مومنوں کے لیے تو دنیا و آخرت دونوں میں سراسر رحمت ہیں، فرمایا : ( بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ) [ التوبۃ : ١٢٨ ] ” مومنوں پر بہت شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ “ اور فرمایا : (وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ) [ التوبۃ : ٦١ ] ” اور ان کے لیے ایک رحمت ہے جو تم میں سے ایمان لائے ہیں۔ “ اور کفار کے لیے بھی دنیا میں سراسر رحمت ہیں کہ آپ کی وجہ سے وہ دنیا میں پہلی قوموں جیسے عذابوں سے محفوظ ہوگئے اور آپ کی شریعت میں صلح و جنگ دونوں حالتوں میں ان پر وہ ظلم و جور روا نہیں رکھا جاتا جو دوسری تمام اقوام اپنے مخالفین پر روا رکھتی ہیں اور آپ کو کفار کے ایمان نہ لانے اور ان کے جہنم کا ایندھن بننے کا اتنا غم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا : (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ) [ الشعراء : ٣ ] ” شاید تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا ہے، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانوروں پر رحم فرماتے اور اس کا حکم دیتے اور ان پر ظلم سے منع فرماتے تھے، فرمایا : ( فِيْ کُلِّ ذَاتِ کَبِدٍ رَطْبَۃٍ أَجْرٌ ) [ بخاري، المظالم، باب الآبار علی الطرق إذا لم یُتأذّبہا : ٢٤٦٦ ] ” ہر تر جگر (زندگی) والی چیز (پر رحم) میں اجر ہے۔ “ حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر ایک بدکار عورت کو مغفرت کی نوید سنائی۔ شریعت اسلامیہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ رحمت بھی رب العالمین ہی کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے محبوب رسول میں یہ وصف رکھا۔ چناچہ ابن جزی ” التسہیل “ میں اعراب کی یہ تینوں وجہیں لکھ کر فرماتے ہیں : ” وَالْمَعْنٰی عَلٰی کُلِّ وَجْہٍ أَنَّ اللّٰہَ رَحِمَ الْعَالَمِیْنَ بِإِرْسَالِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ “ ” ان تمام صورتوں میں معنی ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجنے کے ساتھ جہانوں پر رحم فرمایا۔ “
Commentary وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (And We have not. sent you but as mercy for all the worlds. - 21:107) عَالَمِينَ is plural of عَالَم which means world and includes all creatures including humans, animals, plants, Jinns etc. In order to properly understand the meaning of the verse one should also understand that the true essence of the entire universe is the invocation of Allah Ta` ala and His worship. When this essence departs from this world and no one is left to worship Allah, everything in it will perish. In other words that is the day when Qiyamah would occur. When it is understood that the invocation and worship of Allah Ta` ala is the essence of all living things, then the reason for describing the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) as mercy to the Worlds becomes obvious because it is his teachings and the purity of his personal life alone which keep alive the worship of Allah Ta` ala until Qiyamah. That is why he declared |"I am the blessing sent by Allah اَنَا رَحمَۃُ مُھدَاۃُ (Ibn ` Asakir quoting Abu Hurairah). Sayyidna Ibn ` Umar , has reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said اَنَا رَحمَۃُ مُھدَاۃُ بِرَفعِ قَومِ وَخفضِ آخرِینَ that is |"I am the blessing sent by Allah so that I lift up the people (who obey Allah) and humble the other people (who disobey Allah). (Ibn Kathir) It, therefore, follows that performing jihad against the unbelievers in order to lessen shirk and kufr (unbelief) and in the hope of reclaiming those who transgress the Divine Commands of Allah Ta` ala is an act of mercy.
معارف و مسائل وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ ، عالمین عالم کی جمع ہے جس میں ساری مخلوقات انسان، جن، حیوانات، نباتات، جمادات سبھی داخل ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سب چیزوں کے لئے رحمت ہونا اس طرح ہے کہ تمام کائنات کی حقیقی روح اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت زمین سے یہ روح نکل جائے گی اور زمین پر کوئی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا تو ان سب چیزوں کی موت یعنی قیامت آجائے گی اور جب ذکر اللہ و عبادت کا ان سب چیزوں کی روح ہونا معلوم ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ان سب چیزوں کے لئے رحمت ہونا خود بخود ظاہر ہوگیا کیونکہ اس دنیا میں قیامت تک ذکر اللہ اور عبادت آپ ہی کے دم قدم اور تعلیمات سے قائم ہے اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے انا رحمة مھداة میں اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی رحمت ہوں۔ (اخرجہ ابن عساکر عن ابی ھریرة) اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انا رحمة مھداة برفع قوم و خفض اخرین، یعنی میں اللہ کی بھیجی ہوئی رحمت ہوں تاکہ (اللہ کے حکم ماننے والی) ایک قوم کو سربلند کردوں اور دوسری قوم (جو اللہ کا حکم ماننے والی نہیں ان کو) پست کر دوں (ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کفر و شرک کو مٹانے کیلئے کفار کو پست کرنا اور ان کے مقابلے میں جہاد کرنا بھی عین رحمت ہے جس کے ذریعہ سرکشوں کو ہوش آ کر ایمان اور عمل صالح کا پابند ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ تم تفسیر سورة الانبیاء وللہ الحمد لیلة الرابع والعشرین من ذی الحجة الحرام 1390 من الھجرة النبویة قبل العشاء ولہ الحمد اولا واخرا وظاھرا و باطنا و ھوا المرجو لا تمام الباقی وما ذلک علیہ بعزیز ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ ١٠٧ رسل وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ، ( ر س ل ) الرسل اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ،
(١٠٧۔ ١٠٨) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو اور کسی بات کے لیے رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر جن وانس میں سے جو آپ پر ایمان لائے، اس پر عذاب سے رحمت ونعمت کے لیے بھیجا ہے۔ بس آپ فرما دیجیے کہ میرے پاس تو اس قرآن حکیم کے ذریعے سے یہ وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود حقیقی ایک ہی معبود وحدہ لاشریک ہے، اب بھی مکہ والو تم تم سچے دل سے توحید اور عبادت کا اقرار کرتے ہو یا نہیں۔
آیت ١٠٧ (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ) ” یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت صرف جزیرہ نمائے عرب تک محدود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جزیرۂ نمائے عرب میں اسلام کے عملی طور پر غلبے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہوتا ‘ مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو تمام اہل عالم کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد قرآن میں تین مقامات ( التوبہ : ٣٣ ‘ الفتح : ٢٨ اور الصف : ٩) پر ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے : (ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ) ” وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ اسے غالب کر دے تمام ادیان پر “۔ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد تب پورا ہوگا جب دین اسلامُ کل روئے زمین پر غالب ہوجائے گا۔ اسی مضمون کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے : وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے ! نور توحید کا اتمام یعنی اسلام کا بطور دین کلی غلبہ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں ہی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں دین اسلام کے اس اقتدار کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ بڑی شد و مد سے شروع ہوا مگر دور عثمانی میں ایک یہودی عبداللہ بن سبا نے سازش کے ذریعے عالم اسلام میں ” الفتنۃ الکبرٰی “ کھڑا کردیا۔ اس کے نتیجے میں حضرت عثمان (رض) شہید کردیے گئے اور پھر مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے ہلاک ہوگئے۔ اس فتنہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ نہ صرف غلبہ اسلام کی مزید تصدیر و توسیع کا عمل رک گیا ‘ بلکہ بعض علاقوں سے مسلمانوں کو پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت چونکہ تا قیام قیامتُ کل روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا مقصد ” اِظہار دین ١ لحق “ (دین حق کا غلبہ) ہے ‘ اس لیے یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا یہ مقصد بہ تمام و کمال پورا نہ ہو اور دین اسلامُ کل عالم انسانی پر غالب نہ ہوجائے۔ اس کا صغریٰ و کبریٰ قرآن سے ثابت ہے اور اس کی تفصیلات کتب احادیث میں موجود ہیں۔
100. This verse can also be translated as: We have sent you only as a blessing for the people of the world. In both cases it will mean that the appointment of the Prophet (peace be upon him) is indeed a blessing and mercy of Allah to the whole world. This is because he aroused the neglectful world from its heedlessness and gave it the knowledge of the criterion between truth and falsehood, and warned it very clearly of both the ways of salvation and ruin. This fact has been stated here to tell the disbelievers of Makkah that they were quite wrong in their estimate of the Prophet (peace be upon him) that he was an affliction and distress for them because they said: This man has sown seeds of discard among our clans and separated near relatives from each other. They have been told here: O people, you are wrong to presume that he is an affliction for you; but he is in reality a blessing and mercy of Allah for you.
سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :100 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے ، کیونکہ آپ نے آ کر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکایا ہے ، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے ، اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتا دیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی ۔ کفار مکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھوٹ ڈال دی ہے ، ناخن سے گوشت جدا کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس پر فرمایا گیا کہ نادانو ، تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت تمہارے لیے خدا کی رحمت ہے ۔
ف 14 ۔ صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ مسلمان کافر سب کیلئے اور دنیوی و اخروی ہر اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اسلامی اصول و شریعت کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ جو اخلاقی قدریں اور دائمی اصول آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے اللہ تعالیٰ نے متعین فرمائے ہیں وہ آج تک دنیا تلاش نہیں کرسکی۔ اس سے بڑی رحمت اور کیا ہوسکتی ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع سے ہر قسم کی سعادت حاصل ہوئی۔ مگر کفار کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے رحمت ہیں ؟ اس کے جواب میں حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طفیل ہمیشہ کیلئے اللہ تعالیٰ نے پہلی قوموں پر جو ہلاکت خیز عذاب آتے رہے، وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد روک دء یے اور ایک دفعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کے الزامات کے جواب میں فرمایا، والاھدییھم وھمکارھون۔ کہ میں ان کی نرت کے باوجود ان کو ہدایت پر لانے کی کوششیں جاری رکھوں گا۔ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رحمت ہونے کا مفہوم ہوتا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی)
لغات القرآن آیت نمبر 107 تا 112 ارسلنا ہم نے بھیجا۔ ھل کیا۔ مسلمون فرمانبرداری کرنے والے۔ اذنت میں نے خبر دے دی۔ سواء برابر، پوری پوری۔ ان ادری میں نہیں جانتا۔ الجھر پکارنا، زور سے کہنا۔ متاع سامان راحت، فائدہ۔ حین زمانہ، وقت۔ المستعان مدد طلب کی جاتی ہے۔ تشریح : آیت نمبر 107 تا 112 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے آپ اہل ایمان کے لئے تو اس لئے رحمت ہیں کہ آپ کے ذریعہ ان کو اللہ کا وہ پیغام ہدایت نصیب ہوا جو قیامت تک آنے والے اہل ایمان کے لئے رحمت ہی رحمت ہے اور کفار اور مشرکین کے لئے بھی رحمت ہے کیونکہ آپ کی وجہ سے وہ قومیں اللہ کے اس عذاب سے محفوظ ہوگئی ہیں جو گزشتہ قوموں پر آئے تھے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس سے رویات ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کفار و مشرکین کے لئے رحمت ہیں کہ جس طرح قوموں کے چہرے مسخ کردیئے گئے، زمین میں دھنسا دیئے گئے اور ان کو ان کے کفر کے سبب جڑ اور بنیاد سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ان پر ان جیسے عذاب نہیں آئیں گے البتہ زلزلے، طوفان اور آپس کے لڑائی جھگڑوں وغیرہ کے عذاب ضرور آئیں گے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ عذاب بنا کر نہیں بھیجا۔ ایک مرتبہ کسی صحابی نے کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مشرکین کے لئے بد دعا کیجیے، آپ نے فرمایا کہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں لعنتیں بھیجنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ آپ کے ذریعہ اللہ نے انسانیت کو وہ رہبر و رہنما کتاب عطا کی ہے جس کے ذریعے یہ پوری کائنات ہر ایک کیلئے رحمت ہی رحمت بن جاتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ میرے اوپر اس اللہ کی طرف سے وحی نازل کی جاتی ہے جو تم سب کا رب اور اللہ ہے۔ جس کو ماننے میں دیر نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن اگر وہ اس وحی الٰہی سے اپنا منہ پھیرتے ہیں ان سے صاف صاف کہہ دیجیے کہ میں نے تمام حالات سے تمہیں پوری طرح آگاہ کردیا۔ اگر تم نے اس کو مان لیا تو اس میں تمہارے لئے ہی بھلائی اور خیر ہے۔ فرمایا کہ ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ میں نے اللہ کی طرف سے ہر بات کو واضح طریقے پر بیان کردیا ہے۔ اب مجھے یہم علوم نہیں ہے کہ تم سے جو وعدہ کیا گیا وہ فیصلہ جلد آئے گا یا اس میں دیر ہوگی۔ اس بات کا علم صرف اس اللہ کو ہے جو ہر اس بات کو اچھی طرح جانتا ہے جو انسان آہستہ سے کہتا ہے یا پکار کر کہتا ہے۔ فرمایا کہ ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ تمہیں ایک دفعہ پھر مہلت دی جا رہی ہے تاکہ تم سمجھ کر سنبھل جاؤ۔ لیکن اگر وہ اپنی روش زندگی کو تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو پھر آپ کہہ دیجیے کہ ان کا جو بھی ٹھیک ٹھیک فیصلہ ہوگا۔ اس کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔ ہم تو اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں مدد مانگنے والے ہیں۔ وہی ہماری مدد فرمائے گا۔ اس مضمون پر الحمد للہ سورة الانبیاء کا ترجمہ اور تشریح تکمیل تک پہنچی۔ و آخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
2۔ وہ مہربانی یہی ہے کہ لوگ رسول سے ان مضامین کو قبول کریں اور ہدایت کے ثمرات حاصل کریں۔ اور جو قبول نہ کرے یہ اس کا قصور ہے، اس مضمون کی صحت میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔
فہم القرآن ربط کلام : نیک بندوں کو اقتدار دینے کی خوشخبری سنانے کے بعد ایک عظیم ترین خوشخبری سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ جس کا حقیقی احترام کرنے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے صلہ میں مسلمان پوری دنیا میں بر سراقتدار ہوئے اور ہونگے اور آخرت میں اپنے رب کی رحمتوں کے حقدار ٹھہریں گے۔ عقیدہ توحید کے دلائل کے جواب میں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےمثال اور پرخلوص جدوجہد سے گھبرا کر کفار پروپیگنڈا کرتے تھے کہ اس شخص نے گھر گھر اختلاف پیدا کرکے ہمیں مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ اس کی وجہ سے دن کا سکون غارت ہوا اور ہمارے لیے راتوں کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ اس شخص کی وجہ سے ہماری پریشانیوں میں اضافہ ہوا اور پورے کا پورا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کے زہریلے پروپیگنڈہ کے جواب میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور پیغام کو پورے عالم کے لیے نعمت قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود اہل مکہ کے لیے بھی رحمت کا باعث بنایا تھا۔ ارشاد فرمایا اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ توحید و رسالت کی مخالفت اور اپنے جرائم کی وجہ سے اس مقام پر آکھڑے ہوئے ہیں کہ انھیں ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر تہس نہس کردیا جائے۔ لیکن ہم ایسا اس لیے نہیں کرتے کیونکہ آپ اور استغفار کرنے والے مسلمان مکہ میں موجود ہیں۔ (الانفال : ٣٣) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات جانوروں کے لیے بھی باعث رحمت تھی : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ (رض) أَرْدَفَنِی رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خَلْفَہُ ذَاتَ یَوْمٍ فَأَسَرَّ إِلَیَّ حَدِیثًا لاَ أُحَدِّثُ بِہِ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ وَکَانَ أَحَبُّ مَا اسْتَتَرَ بِہِ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِحَاجَتِہِ ہَدَفًا أَوْ حَاءِشَ نَخْل قَالَ فَدَخَلَ حَاءِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ فَلَمَّا رَأَی النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حَنَّ وَذَرَفَتْ عَیْنَاہُ فَأَتَاہ النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَمَسَحَ ذِفْرَاہُ فَسَکَتَ فَقَالَ مَنْ رَبُّ ہَذَا الْجَمَلِ لِمَنْ ہَذَا الْجَمَلُ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الأَنْصَارِ فَقَال لِی یَا رَسُول اللَّہِ فَقَالَ أَفَلاَ تَتَّقِی اللَّہَ فِی ہَذِہِ الْبَہِیمَۃِ الَّتِی مَلَّکَکَ اللَّہُ إِیَّاہَا فَإِنَّہُ شَکَی إِلَیَّ أَنَّکَ تُجِیعُہُ وَتُدْءِبُہُ ) [ رواہ ابوداود : باب مَا یُؤْمَرُ بِہِ مِنَ الْقِیَامِ عَلَی الدَّوَابِّ وَالْبَہَاءِمِ ] ” حضرت عبداللہ بن جعفر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن مجھے اپنے پیچھے سوار کیا اور میرے ساتھ خاصگفتگو فرمائی جو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پردے کو پسند فرماتے تھے۔ جب آپ قضاء حاجت کے لیے نکلتے آپ کسی اوٹ یا درختوں کے جھنڈ کا انتخاب فرماتے۔ عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے آپ کو دیکھ کر ایک اونٹ بلبلایا اور اس کی آنکھیں بہہ نکلیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے قریب گئے اس کی گردن پہ پیار کیا تو وہ چپ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا اس اونٹ کا مالک کون ہے یا فرمایا یہ اونٹ کس کا ہے ؟ انصاری نوجوان نے آکر عرض کی یہ میرا اونٹ ہے آپ نے فرمایا تجھے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرنا چاہیے جس کا تجھے اللہ نے مالک بنایا ہے۔ اس نے میرے سامنے شکایت کی ہے کہ تو اسے کھلا تا تھوڑا اور کام زیادہ لیتا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے بالخصوص رحمت ہیں : (لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ) [ التوبہ : ١٢٨] ” (لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے تمہاری تکلیف اس کو گراں گزرتی ہے وہ تمہاری بھلائی کا بہت خواہشمند ہے، اور مومنوں پر نہایت ہی شفقت کرنے والا اور مہربان ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہیں : ” یقیناً اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا وہ ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ نفس ہے، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ حالانکہ وہ اس سے پہلے واضح طور پر گمراہ ہوچکے تھے۔ “ [ ال عمران : ١٦٤] تفصیل کے لیے قاضی سلیمان (رح) کی کتاب رحمت العالمین کا مطالعہ کریں۔ مسائل ١۔ سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود اطہر بھی لوگوں کے لیے اللہ کی رحمت کا باعث تھا۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام اور نظام اقوام عالم کے لیے رحمت کی ضمانت دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور پیغام قرآن کے آئینہ میں : ١۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا۔ (النساء : ٨٩) ٢۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔ (البقرۃ : ١١٩) ٣۔ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہانوں کے لے رحمت بنا کر بھیجا۔ (الانبیاء : ١٠٧) ٤۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو شاہد، مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا۔ (الاحزاب : ٤٥)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمۃ للعالمین ہی ہیں آیت بالا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رحمۃ للعالمین کا مبارک اور معظم لقب عطا فرمایا اور سورة توبہ میں آپ کو رؤف رحیم کے لقب سے سر فراز فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا انما انا رحمت مھداۃ (یعنی میں اللہ کی طرف سے مخلوق کی طرف بطور ہدیہ بھیجا گیا ہوں اور سراپا رحمت ہوں۔ ) ایک حدیث میں ارشاد ہے آپ نے فرمایا ان اللہ تعالیٰ بعثنی رحمۃ للعالمین وھدی للعالمین و امرنی ربی بمحق المعازف و المزامیر والاوثان و الصلیب وامر الجاھلیۃ (بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سارے جہانوں کے لیے ہدایت اور رحمت بنا کر بھیجا اور میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ گانے بجانے کی چیزوں کو مٹا دوں اور بتوں کو اور صلیب کو (جس کی نصرانی پرستش کرتے ہیں) اور جاہلیت کے کاموں کو مٹا دوں۔ رحمۃ للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت عام ہے آپ کی تشریف آوری سے پہلے سارا عالم کفر و شرک کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ آپ تشریف لائے سو توں کو جگایا، حق کی طرف بلایا۔ اس وقت سے لے کر آج تک کروڑوں انسان اور جنات ہدایت پا چکے ہیں۔ ساری دنیا کفر و شرک کی وجہ سے ہلاکت اور بربادی کے دہانہ پر کھڑی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشریف لانے سے دنیا میں ایمان کی ہوا چلی، توحید کی روشنی پھیلی جب تک دنیا میں اہل ایمان رہیں گے قیامت نہیں آئے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دنیا میں اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا۔ (صحیح مسلم ص ٨٤، ج ١) یہ اللہ کی یاد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی محنتوں کا نتیجہ ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ عالم کے لیے آسمانوں کے اور زمین کے رہنے والے حتیٰ کہ مچھلیاں پانی میں استغفار کرتی ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٣٤) اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ جب تک علوم نبوت کے مطابق دنیا میں اعمال موجود ہیں اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی۔ اگر یہ نہ ہوں تو قیامت آجائے۔ اس لیے ہمیں دینی علوم کے طلباء کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ کا نام لے کر پوچھتا ہے کیا آج تیرے اوپر سے کوئی ایسا شخص گزرا ہے جس نے اللہ کا نام لیا ہو۔ اگر وہ پہاڑ جواب میں کہتا ہے کہ ہاں ایک ایسا شخص گزرا تھا تو یہ جواب سن کر سوال کرنے والا پہاڑ خوش ہوتا ہے۔ (ذکر ابن الجزری فی الحصن الحصین) اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا ایک شخص ایک پہاڑ پر گزرا اور دوسرے پہاڑ کو یہ بات معلوم کر کے خوشی ہوئی اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ عموماً مومن بندے جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں اس سے عالم کی بقا ہے۔ مجموعہ عالم میں آسمان، زمین، چرند پرند، چھوٹے بڑے حیوانات اور جمادات سبھی ہیں۔ قیامت آئے گی تو کچھ بھی نہ رہے گا۔ سب کی بقا اہل ایمان کی وجہ سے ہے اور ایمان کی دولت رحمت للعالمین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملی ہے۔ اس اعتبار سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رحمۃ للعالمین ہونا ظاہر ہے۔ اور اس اعتبار سے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایمان اور ان اعمال کی دعوت دی جن کی وجہ سے دنیا میں اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی ہے اور آخرت میں بھی ایمان اور اعمال صالحہ والوں کے لیے رحمت ہوگی جو لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے انہوں نے رحمت سے فائدہ نہیں اٹھایا جیسا کہ نابینا آدمی کو آفتاب کے طلوع ہونے سے روشنی کا فائدہ نہیں ہوتا۔ روشنی سے نابینا کا محروم ہونا سورج کے تاریک ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی امتیں جب اسلام قبول نہیں کرتی تھیں تو ان پر عذاب آجاتا تھا اور نبی کی موجودگی میں ہی ہلاک کردی جاتی تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رحمۃ للعالمین ہونے کا اس بات میں بھی مظاہرہ ہے کہ عمومی طور پر سبھی منکرین اور کافرین ہلاک ہوجائیں۔ ایسا نہیں ہوگا۔ آخرت میں کافروں کو کفر کی وجہ سے جو عذاب ہوگا۔ وہ آخرت سے متعلق ہے۔ دنیا میں آپ کو کیسی کیسی تکلیفیں دی گئیں اور کس کس طرح ستایا گیا آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیشہ رحمت ہی کا برتاؤ کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ آپ مشرکین کے لیے بد دعا کیجیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ (میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ) (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٥١٩) آپ طائف تشریف لے گئے وہاں دین حق کی دعوت دی۔ وہ لوگ ایمان نہ لائے اور آپ کے ساتھ بد خلقی کا بہت برا برتاؤ کیا۔ پہاڑوں پر مقرر فرشتہ نے آکر خدمت عالی میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ فرمائیں تو ان لوگوں کو پہاڑوں کے بیچ میں کچل دوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی وحدانیت کا اقرار کریں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٥٢٣) سورۂ توبہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے (عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ ) یعنی امت کو جس چیز سے تکلیف ہو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاق گزرتی ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ (حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے نفع کے لیے حریص ہیں، اہل ایمان کو اعمال صالحہ سے بھی متصف دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی حرص ہے کہ ان کے دنیاوی حالات درست ہوجائیں۔ (بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے ساتھ رافت اور رحمت کا تعلق ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق صرف اتنا نہیں تھا کہ بات کہہ کر بےتعلق ہوجاتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت سے قلبی تعلق تھا۔ ظاہراً بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہمدرد تھے اور باطناً بھی۔ امت کو جو تکلیف ہوتی اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی شریک ہوتے اور جس کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے کڑھن ہوتی تھی۔ حضرات صحابہ میں کسی کو تکلیف ہوجاتی تھی تو اس کے لیے فکر مند ہوتے تھے۔ عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے، دوا بتاتے تھے، مریض کو تسلی دینے کی تعلیم دیتے تھے۔ تکلیفوں سے بچانے کے لیے ان امور کی تعلیم دیتے تھے، جن سے تکلیف پہنچنے کا اندیشہ تھا اور جن سے انسان کو خود ہی بچنا چاہیے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت کا تقاضا یہ تھا کہ ایسے امور کو بھی واضح فرماتے تھے۔ اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا جس کی منڈیر بنی ہوئی نہ ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٤٠٤) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کہ جو شخص (ہاتھ دھوئے بغیر) اس حالت میں سو گیا کہ اس کے ہاتھ میں چکنائی لگی ہوئی تھی پھر اسے کوئی تکلیف پہنچ گئی (مثلاً کسی جانور نے ڈس لیا) تو وہ اپنی ہی جان کو ملامت کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٣٦٦) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص رات کو سونے کے بعد بیدار ہو تو ہاتھ دھوئے بغیر پانی میں ہاتھ نہ ڈالے۔ کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں رہا ہے (ممکن ہے کہ اسے کوئی ناپاک چیز لگ گئی ہو یا اس پر زہریلا جانور گزر گیا ہو) (رواہ البخاری و مسلم) جوتے پہننے کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ زیادہ تر جوتے پہنے رہا کرو۔ کیونکہ آدمی جب تک جوتے پہنے رہتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص سوار ہو۔ جیسے جانور پر سوار ہونے والا زمین کے کیڑے مکوڑوں اور گندی چیزوں اور کانٹوں اور اینٹ پتھر کے ٹکڑوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ایسے ہی ان چیزوں سے جوتے پہننے والے کی بھی حفاظت رہتی ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٣٧٩) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ جب چلتے چلتے کسی کا چپل کا تسمہ ٹوٹ جائے تو ایک چپل میں نہ چلے۔ یہاں تک کہ دوسرے چپل کو درست نہ کرلے (پھر دونوں کو پہن کر چلے) اور یہ بھی فرمایا کہ ایک موزہ پہن کر نہ چلے (کیونکہ ان صورتوں میں ایک قدم اونچا اور ایک قدم نیچا ہو کر توازن صحیح نہیں رہتا) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کو اس طرح تعلیم دیتے تھے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کو سکھاتے اور بتاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہارے لیے باپ ہی کی طرح ہوں۔ میں تمہیں سکھاتا ہوں (پھر فرمایا کہ) جب تم قضاء حاجت کی جگہ جاؤ تو قبلہ کی طرف نہ منہ کرو نہ پشت کرو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین پتھروں سے استنجا کرنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ لید سے اور ہڈی سے استنجا نہ کرو اور دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع فرمایا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٤٢) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص پیشاب کرنے کا ارادہ کرے تو جگہ کو دیکھ بھال لے (مثلاً پکی جگہ نہ ہو، جہاں سے چھینٹے اڑیں اور ہوا کا رخ نہ ہو وغیرہ۔ (مشکوٰۃ ص ٤٢) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا (مشکوٰۃ المصابیح) کیونکہ ان میں جنات اور کیڑے مکوڑے رہتے ہیں۔ اگر کتب حدیث میں زیادہ وسیع نظر ڈالی جائے تو اس طرح کی بہت سی تعلیمات سامنے آجائیں گی جو سراسر شفقت پر مبنی ہیں۔ اس شفقت کا تقاضا تھا کہ آپ کو یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی بھی مومن عذاب میں مبتلا ہوجائے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ جلائی۔ جب چاروں طرف روشنی ہوگئی تو پروانے اس آگ میں آکر گرنے لگے۔ وہ شخص ان کو روکتا ہے کہ آگ میں نہ گریں لیکن وہ اس پر غالب آجاتے ہیں اور آگ میں گرتے ہیں۔ اسی طرح میں بھی تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں اور تم زبردستی اس میں گرتے ہو۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو گناہوں پر وعیدیں بتائی ہیں اور عذاب کی خبریں دی ہیں ان پر دھیان نہیں دیتے۔ (رواہ البخاری و مسلم) سورة آل عمران میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَ اسْتَغْفِرْلَھُمْ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ ) (سو اللہ کی رحمت کے سبب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لیے نرم ہوگئے اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔ سو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو معاف فرما دیجیے اور ان کے لیے استغفار کیجیے اور کاموں میں ان سے مشورہ لیجیے۔ پھر جب آپ پختہ عزم کرلیں تو آپ اللہ پر توکل کیجیے۔ بیشک توکل کرنے والے اللہ کو محبوب ہیں) ۔ آیت بالا میں جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوش خلقی اور نرم مزاجی اور رحمت و شفقت کا ذکر ہے وہاں اس امر کی بھی تصریح ہے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ صحابہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہیں، جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بےپناہ محبت کرتے ہیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے چلے جاتے اور منتشر ہوجاتے ہیں، حضرت سعدی نے کیا اچھا فرمایا کس نہ بیند کہ ان حجاز برلب آب شور گرد آیند ہر کجا چشمہ بود شیریں مردم و مرغ و مور گرد آیند رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق عالیہ میں شفقت اور رحمت کا ہمیشہ مظاہرہ ہوتا رہتا تھا۔ جب کوئی شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مصافحہ کرتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ہاتھ میں سے اپنا ہاتھ نہیں نکالتے تھے جب تک کہ وہی اپنا ہاتھ نکالنے کی ابتداء نہ کرتا اور جس سے ملاقات ہوتی تھی اس کی طرف سے خود چہرہ نہیں پھیرتے تھے یہاں تک کہ وہی اپنا رخ پھیر کر جانا چاہتا تو چلا جاتا تھا۔ حضرت انس (رض) نے بیان کیا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے اہل و عیال سے شفقت کرنے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر ہو۔ حضرت انس (رض) نے یہ بھی بیان فرمایا کہ میں نے دس سال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی، مجھ سے کبھی کچھ نقصان ہوگیا تو مجھے کبھی ملامت نہیں فرمائی۔ اگر آپ کے گھر والوں میں سے کسی نے ملامت کی تو فرمایا کہ رہنے دو ۔ اگر کوئی چیز اللہ کے قضا و قدر میں ہے تو وہ ہو کر ہی رہے گی۔ آپ رحمۃ للعالمین تھے۔ دوسروں کو بھی رحم کرنے کا حکم فرمایا۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اس پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (رواہ البخاری و مسلم) آپ نے فرمایا کہ مومنین کو ایک دوسرے پر رحم کرنے اور آپس میں محبت اور شفقت کرنے میں ایسا ہونا چاہیے جیسے ایک ہی جسم ہو۔ جسم کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم جاگتا رہتا ہے اور سارے جسم کو بخار چڑھ جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کے دل سے رحمت نکال لی جاتی ہے جو بد بخت ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح، باب الشفقۃ و الرحمۃ علی الخلق) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرماتا ہے۔ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ کرے اور برائیوں سے نہ روکے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ص ٤٢٣) امت محمدیہ پر لازم ہے کہ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کریں اور سب آپس میں رحمت و شفقت کے ساتھ مل کر رہیں اور اپنی معاشرت میں رحمت و شفقت کا مظاہرہ کریں۔ سورة توبہ کی آخری آیت (لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ) کی تفسیر بھی ملاحظہ کرلیں۔
85” وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ الخ “ آپ تمام جہانوں کے لیے باعث رحمت اس طرح ہیں کہ آپ نے اللہ کے حکم سے سب کے لیے توحید کا اعلان کیا اور صراط مستقیم جو جنت کی سیدھی راہ ہے وہ سب کے لیے واضح کردی اور اللہ کی طرف جو پیغام آپ لے کر آئے وہ تمام بنی آدم کے لیے سعادت دارین کا باعث ہے البتہ کافروں نے سوء استعداد اور ضد وعناد کی وجہ سے فائدہ نہ اٹھایا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا۔ آپ مومن و کافر دونوں کے لیے باعث رحمت ہیں۔ مومن آپ پر ایمان لانے سے خوش نصیب ہوگیا اور کافر غرق و خسف اور دیگر دنیوی عذابوں سے بچ گئے جن سے اقوام سابقہ کو ہلاک کیا گیا۔ عن ابن عباس کان محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمۃ لجمیع الناس فمن اٰمن بہ و صدق بہ سعد، ومن لم یومن بہ سلم مما الحق الامم من الخصف والغرق (قرطبی ج 11 ص 350) ۔ والظاھر ان المراد بالعلمین ما یشمل الکفار ووجہ ذلک علیہ انہ (علیہ الصلوۃ والسلام) ارسل بما ھو سبب لسعادۃ الدارین و مصلحۃ النشاتین الا ان الکافر فوت علی نفسہ الانتفاع بذلک واعرض لفساد استعدادہ عما ھنالک (روح ج 17 ص 104) ۔
(107) اور اے پیغمبر ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر جملہ اقوام عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام اقوام عالم کے لئے موجب رحمت بن کر تشریف لائے ہیں کیونکہ آپ جو شریعت اور تہذیب لے کر آئے ہیں اس نے تمام دنیا کو ایک صحیح راستہ دکھادیا ہے جو آپ پر ایمان لے آئے وہ تو اس رحمت ِ خداوندی سے مستفید ہو ہی گئے لیکن جو ایمان نہیں لائے ان کو بھی کچھ نہ کچھ نفع ضرور پہنچا وہ بھی اس دنیا میں خسف اور مسخ اور عذاب استیصال سے محفوظ ہوگئے اور بہت سے لوگوں نے قانون شریعت سے اپنی اصلاح کرلی اگرچہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا التحی پر ایمان نہیں لائے۔ محض تعصب و ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کرتے رہے لیکن باوجود اس انکار کے بھی رحمۃ اللعالمین کی رحمت عامہ سے کم و بیش مستفید سب ہی ہوئے۔