• TAFASEER
      OF SURAH-25 VERSE-30
    • Tafaseer
    • Search Quran
    • Register/Login
  • TrueOrators.com
    Islamic Search Engine
    • اللہ
      Name of Allah
    • The Noble Quran
      • by Parah
      • by Surah
      • by Topics
      • by Arabic Word
    • Hadith Collection
      • Sahih Bukhari
      • Sahih Muslim
      • Jam e Tirmazi
      • Sunnan Abu Dawood
      • Sunnan Nisai
      • Sunnan Ibn e Maja
      • Silsila Sahih
      • Musnad Ahmad
      • Muwtta Amam Malik
      • Mishkat
    • PDF Books
    • Articles
    • Orators of Islam

    • Contributors
    • Developers
    • Feedback
    • Introduction

    • Subscribe to Channel
    • Like us on Facebook
    • Follow us on Twitter
  • Report
    this page
    Leave a
    feedback
    Contact with
    developers
    Report this page
    Register / Login
    Select Tafaseer to display
    Surat ul Furqan
    Parah: 19Surah: 25Verse: 30

    سورة الفرقان

    وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾

    And the Messenger has said, "O my Lord, indeed my people have taken this Qur'an as [a thing] abandoned."

    اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔
    Copy Arabic Copy English Copy Urdu Copy All Languages
    Share on Facebook Share on Twitter Share on Whatsapp
    Create Picture for Post
    • Tafaseer
    • Translations
    • Word by Word
    • Root Words
    Bayan ul Quran
    by Dr Israr Ahmed

    آیت ٣٠ (وَقَال الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا ) ” تاویل خاص کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت قریش مکہّ کے بارے میں ہے کہ اے میرے پروردگار ! میں نے تیرا پیغام ان تک پہنچانے اور انہیں قرآن سنانے کی ہر امکانی کوشش کی ہے ‘ لیکن یہ لوگ کسی طرح اسے سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ‘ جبکہ اس آیت کی تاویل عام یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شکایت قیامت کے دن اپنی امت کے ان افراد کے خلاف ہوگی جو اس ” مہجوری “ کے مصداق ہیں ‘ کہ ان لوگوں نے قرآن کو لائقِ التفات ہی نہ سمجھا۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے : ع ” خوار از مہجورئ قرآں شدی “ کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بہت اہم اور قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ قریش مکہّ نے تو اپنی خاص ضد اور ڈھٹائی میں قرآن کو اس موقف کے تحت ترک کیا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ہی نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنی طرف سے اسے گھڑلیا ہے۔ لیکن آج اگر کوئی شخص کہے کہ میں قرآن پر ایمان رکھتا ہوں اور اسے اللہ کا کلام مانتا ہوں ‘ مگر عملی طور پر اس کا رویہ ایسا ہو کہ وہ قرآن کو لائقِ اعتناء نہ سمجھے ‘ نہ اسے پڑھنا سیکھے ‘ نہ کبھی اس کے پیغام کو جاننے کی کوشش کرے تو گویا اس کے حال یا عمل نے اس کے ایمان کے دعوے کی تکذیب کردی۔ چناچہ اس آیت کے حاشیے (ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود حسن (رح ) میں مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں فرماتے ہیں : ” آیت میں اگرچہ مذکور صرف کافروں کا ہے تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا ‘ اس میں تدبر نہ کرنا ‘ اس پر عمل نہ کرنا ‘ اس کی تلاوت نہ کرنا ‘ اس کی تصحیح قراءت کی طرف توجہ نہ کرنا ‘ اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا ‘ یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجران قرآن کے تحت میں داخل ہوسکتی ہیں۔ “ مقام غور ہے کہ آج اگر ہم اپنی دنیا سنوارنے کے لیے انگریزی زبان میں تو مہارت حاصل کرلیں لیکن قرآن کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی زبان کے بنیادی قواعد سیکھنے کی ضرورت تک محسوس نہ کریں ‘ تو قرآن پر ہمارے ایمان کے دعوے اور اس کو اللہ کا کلام ماننے کی عملی حیثیت کیا رہ جائے گی ؟ چناچہ ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ قرآن کے حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل کرے ‘ اس سلسلے میں عملی تقاضوں کو سمجھے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کی حتی المقدور کوشش کرتا رہے۔ اس موضوع پر میرا ایک نہایت جامع کتابچہ ” مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق “ دستیاب ہے۔ اس کا انگلش ‘ عربی ‘ فارسی اور ملایا زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ قرآن کے حقوق کا ادراک حاصل کرنے کے لیے اس کتابچے کا مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید ثابت ہوگا۔

    Dr Israr Ahmed (intro)

    1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
    ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
    آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
    تعلیمی پس منظر
    قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
    سیاسی زندگی[ترمیم ]
    دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
    بحیثیت اسلامی اسکالر
    تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے ‍قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
    وفات
    ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

    Jawahir ur Quran
    by Moulana Ghulamullah Khan

    22:۔ ” وقال الرسول الخ “ الرسول سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں۔ قیامت کے دن آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی اپنی قوم کی شکایت کریں گے کہ اے میرے پروردگار میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا، نہ اس کو مانا اور نہ اس پر عمل کیا۔ یا یہ جملہ معترضہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا میں اپنی قوم کا انکار و طغیان اور عناد وعدوان دیکھ کر اظہار افسوس کے طور پر اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میری قوم ضد وعناد اور رد و انکار میں انتہا کو پہنچ چکی ہے اور کسی صورت میں قرآن کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ان لما اکثروا من الاعتراضات الفاسدۃ ووجوہ التعنت ضاق صدر الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) و شکاھم الی اللہ تعالیٰ وقال یا رب اکثر المفسرین انہ قول واقع من الرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقال ابو مسلم بل المراد ان الرسول (علیہ السلام) یقول فی الاخرۃ والاول اولی لانہ موافق للٖظ الخ (کبیر ج 6 ص 470) ۔

    Moulana Ghulamullah Khan (intro)

    حضرت مولانا غلام اللہ خان
    حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
    خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔

    Website Developed by TechWare House
    Copyright © 2018-20