آیت ١٤ ( زُیِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ ) مرغوبات دنیا میں سے پہلی محبت عورتوں کی گنوائی گئی ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک بھی انسانی محرکات میں سب سے قوی اور زبردست محرک (potent motive) جنسی جذبہ ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے بھی سب سے پہلے اسی کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے لیے پیٹ کا مسئلہ فوقیت اختیار کرجاتا ہے اور معاشی ضرورت جنسی جذبے سے بھی شدید تر ہوجاتی ہے ‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے مابین کشش انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے : (مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ) (١) میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنے سے زیادہ ضرر رساں فتنہ اور کوئی نہیں چھوڑا۔ ان کی محبت انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ بلعام بن باعورہ یہود میں سے ایک بہت بڑا عالم اور فاضل شخص تھا ‘ مگر ایک عورت کے چکر میں آکر وہ شیطان کا پیرو بن گیا۔ اس کا قصہّ سورة الاعراف میں بیان ہوا ہے۔ بہرحال عورتوں کی محبت انسانی فطرت کے اندر رکھ دی گئی ہے۔ پھر انسان کو بیٹے بہت پسند ہیں کہ اس کی نسل اور اس کا نام چلتا رہے ‘ وہ بڑھاپے کا سہارا بنیں۔ (وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ) (وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ ) عمدہ نسل کے گھوڑے جنہیں چن کر ان پر نشان لگائے جاتے ہیں۔ (وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط) پنجاب اور سرائیکی علاقہ میں چوپاؤں کو مال کہا جاتا ہے۔ یہ جانور ان کے مالکوں کے لیے مال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج ) بس نقطۂ اعتدال یہ ہے کہ جان لو یہ ساری چیزیں اس دنیا کی چند روزہ زندگی کا سازوسامان ہیں۔ اس زندگی کے لیے ضروریات کی حد تک ان سے فائدہ اٹھانا کوئیُ بری بات نہیں ہے۔ (وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ) ۔ وہ جو اللہ کے پاس ہے اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ایمان بالآخرت موجود ہے تو پھر انسان ان تمام مرغوبات کو ‘ اپنے تمام جذبات اور میلانات کو ایک حد کے اندر رکھے گا ‘ اس سے آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ لیکن اگر ان میں سے کسی ایک شے کی محبت بھی اتنی زوردار ہوگئی کہ آپ کے دل کے اوپر اس کا قبضہ ہوگیا تو بس آپ اس کے غلام ہوگئے ‘ اب وہی آپ کا معبود ہے ‘ چاہے وہ دولت ہو یا کوئی اور شے ہو۔
ٖ 20 یہ عیسائیوں کے علماء اور گدی نشینوں کے مسئلہ توحید کو نہ ماننے کی وجہ ہے وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے مسئلہ توحید کو مان لیا تو یہ ساری شان و شوکت جاتی رہتی ہے اور سونے چاندی کے لبریز خزانوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل کے بہت سے مولوی اور گدی نشین بھی حق بیان نہیں کرتے کیونکہ اس طرح دنیوی ٹھاٹھ اور اندھی آمدنی ہاتھ سے جاتی ہے۔ نیز اس میں ایک شبہ کا جواب بھی ہے۔ شبہ یہ ہے کہ اگر مشرکین مبغوض اور مستحق عذاب ہیں تو ان کے پاس اس قدر دولت کیوں ہے۔ تو اس کا جواب دیا کہ یہ دنیا کی دولت چند روزہ اور بالکل حقیر چیز ہے۔ اس کی وجہ سے تمہیں دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ جیسے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ الْبَلَادِ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ (آل عمران رکوع 20) نیز ارشاد ہے۔ وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَوْلَادِ (حدید رکوع 3) والترغیب فی حسن المرجع الی اللہ تعالیٰ فی الاخرۃ (قرطبی ج 4 ص 37)