آیت ٧ (ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ ) کسی کسی جگہ نَزَّلَ کے بجائے اَنْزَلَ کا لفظ بھی آجاتا ہے ‘ اور یہ آہنگ (rhythm) کے اعتبار سے ہوتا ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید کا اپنا ایک ملکوتی غنا (Divine Music) ہے ‘ اس میں اگر آہنگ کے حوالے سے ضرورت ہو تو یہ الفاظ ایک دوسرے کی جگہ آجاتے ہیں۔ (مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ ) محکم اور پختہ آیات وہ ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح ہو اور جنہیں ادھر سے ادھر کرنے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اس کتاب کی جڑ ‘ بنیاد اور اساس وہی ہیں۔ (وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ط) جن کا حقیقی اور صحیح صحیح مفہوم معین کرنا بہت مشکل بلکہ عام حالات میں ناممکن ہے۔ اس کی تفصیل تعارف قرآن کے ضمن میں عرض کی جا چکی ہے۔ آیات الاحکام جتنی بھی ہیں وہ سب محکم ہیں ‘ کہ یہ کرو یہ نہ کرو ‘ یہ حلال ہے یہ حرام ! جیسا کہ ہم نے سورة البقرۃ میں دیکھا کہ بار بار کُتِبَ عَلَیْکُمْکے الفاظ آتے رہے۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کتاب درحقیقت ہے ہی مجموعۂ احکام۔ لیکن جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی بحث ہے ان کا فہم آسان نہیں ہے۔ اللہ کی ذات وصفات کا ہم کیا تصور کرسکتے ہیں ؟ اللہ کا ہاتھ ‘ اللہ کا چہرہ ‘ اللہ کی کرسی ‘ اللہ کا عرش ‘ ان کا ہم کیا تصور کریں گے ؟ اسی طرح فرشتے عالم غیب کی شے ہیں۔ عالم برزخ کی کیا کیفیت ہے ؟ قبر میں کیا ہوتا ہے ؟ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ عالم آخرت ‘ جنت اور دوزخ کی اصل حقیقتیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ چناچہ ہماری ذہنی سطح کے قریب لا کر کچھ باتیں ہمیں بتادی گئی ہیں کہ مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ ۔ چناچہ ان کا ایک اجمالی تصور قائم ہوجانا چاہیے ‘ اس کے بغیر آدمی کا راستہ سیدھا نہیں رہے گا۔ لیکن ان کی تفاصیل میں نہیں جانا چاہیے۔ دوسرے درجے میں میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کچھ طبیعیاتی مظاہر (Physical Phenomena) بھی ایک وقت تک آیات متشابہات میں سے رہے ہیں ‘ لیکن جیسے جیسے سائنس کا علم بڑھتا چلا جا رہا ہے ‘ رفتہ رفتہ ان کی حقیقت سے پردہ اٹھتا جا رہا ہے اور اب بہت سی چیزیں محکم ہو کر ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ تاہم اب بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت سے ہم بیخبر ہیں۔ جیسے ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ سات آسمان سے مراد کیا ہے ؟ ہمارا یقین ہے کہ ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا کہ انسان سمجھ لے گا کہ ہاں یہی بات صحیح تھی اور یہی تعبیر صحیح تھی جو قرآن نے بیان کی تھی۔ (فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ) (ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ ) وہ چاہتے ہیں کہ کوئی خاص نئی بات نکالی جائے تاکہ اپنی ذہانت اور فطانت کا ڈنکا بجایا جاسکے یا کوئی فتنہ اٹھایا جائے ‘ کوئی فساد پیدا کیا جائے۔ جن کا اپنا ذہن ٹیڑھا ہوچکا ہے وہ اس ٹیڑھے ذہن کے لیے قرآن سے کوئی دلیل چاہتے ہیں۔ چناچہ اب وہ متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے مفہوم کو اپنے من پسند مفہوم کی طرف موڑ سکیں۔ یہ اس سے فتنہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ (وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِہٖ ج ) وہ تلاش کرتے ہیں کہ ان آیات کی اصل حقیقت ‘ اصل منشا اور اصل مراد کیا ہے۔ یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کا علمی ذوق ہی ایسا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کی فطرت میں کجی ہو۔ (وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ الاَّ اللّٰہُ ٧ ) ۔ (وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖلا کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج) ۔ جن لوگوں کو رسوخ فی العلم حاصل ہوگیا ہے ‘ جن کی جڑیں علم میں گہری ہوچکی ہیں ان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ جو بات صاف سمجھ میں آگئی ہے اس پر عمل کریں گے اور جو بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہی ہے اس کے لیے انتظار کریں گے ‘ لیکن یہ اجمالی یقین رکھیں گے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔ (وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاََلْبَابِ ) اور سب سے بڑی ہوش مندی یہ ہے کہ انسان اپنی عقل کی حدود (limitations) کو جان لے کہ میری عقل کہاں تک جاسکتی ہے۔ اگر انسان یہ نہیں جانتا تو پھر وہ اولوالالباب میں سے نہیں ہے۔ بلاشبہ عقل بڑی شے ہے لیکن اس کی اپنی حدود ہیں۔ ایک حد سے آگے عقل تجاوز نہیں کرسکتی : گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے ! یعنی منزل تک پہنچانے والی شے عقل نہیں ‘ بلکہ قلب ہے۔ لیکن عقل بہرحال ایک روشنی دیتی ہے ‘ حقیقت کی طرف اشارے کرتی ہے۔
7 اس میں شک نہیں کہ یہ کتاب تو خدا ہی نے نازل کی ہے۔ جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق روح اللہ اور کلمۃ اللہ کے الفاظ موجود ہیں مگر اس کی آیتیں اپنے مفہوم ومعنی کے اعتبار سے دو قسم کی ہیں ایک محکم دوم متشابہ، محکم تو وہ ہیں جن کا معنی متفق علیہ اور مفہوم معقول اور قابل فہم ہو اور متشابہ وہ ہیں جن کی تاویل مختلف فیہ ہو اور ان کا ظاہر فہم سے بالا ہو۔ مثلاً حروف مقطعات اور ید اللہ، روح اللہ اور کلمۃ اللہ وغیرہ۔ المحکماتھی المتفق علی تاویلھا والمعقول معناھا والمتشابھات فی المختلف فی تاویلھا (المعتصر من مختصر مشکل الآثار طحاوی ج 2 ص 164) ھُنَّ اُمُّ الْکِتَابِ ۔ یعنی کتاب کی اصل اور مرکزی حصہ اور احکام کا محور یہی محکمات ہیں احکام انہیں سے ثابت ہوں گے نہ کہ متشابہات سے بلکہ متشابہات کا مفہوم محکمات کی روشنی میں متعین کیا جائے گا۔ ای اصلہ والعمده فیہ یرد الیھا غیرھا (روح ج 2 ص 80) 8 ۔ زِیغٌ سے دل کی کجی، حق سے روگردانی اور ہوائے نفس کی طرف میلان مراد ہے۔ ای میل عن الحق الی الاھواء (ابو السعود ج 2 ص 601) فتنہ سے مراد شروفساد ہے۔ یعنی جن لوگوں کے دل حق سے متنفر اور باطل کی طرف مائل ہیں وہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑجاتے ہیں جس سے ان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کریں۔ وہ متشابہات کے اصل مفہوم کی کرید میں لگ جاتے ہیں۔ جب ان کا اصل مفہوم حاصل نہیں کر پاتے تو مختلف طریقوں سے مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ 9 یہ جملہ یَتَّبِعُوْنَ کی ضمیر سے حال ہے۔ یعنی یہ بدباطن لوگ متشابہات کا اصل مفہوم معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ناممکن ہے کیونکہ متشابہات کا صحیح علم تو صرف خدا کو ہے ان کو اور کوئی نہیں جانتا۔ کیونکہ ان کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مخصوص کر رکھا ہے۔ وَمَایَعْلَمُ تَاوِیْلَهٗ اِلَّا اللہَ پر وقف لازم ہے۔ اور اس کے بعد جملہ مستانفہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ متشابہات کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں جیسا کہ ابن عباس، عائشہ، ابن عمر، ابن مسعود، ابی بن کعب، عمر بن عبدالعزیز عروة بن الزبیر، امام مالک، ابو عبید، کسائی، فراء اور اخفش وغیرہمہ سے منقول ہے۔ وعلی ھذا القول لا یعلم المتشابہ الا اللہ وھذا قول ابن عباس وعائشۃ والحسن ومالک بن انس والکسائی والفراء ومن المعتزلۃ قول ابی علی الجبائی وھو المختار عندنا (کبیر ج 2 ص 602) ھذا قول ابن عمر وابن عباس وعائشۃ وعروۃ بن الزبیر وعمر بن عبدالعزیز وغیر وھو مذھب الکسائی والاخفش والفراء وابی عبید وغیرھم وروی ذالک عن ابن مسعود وابی بن کعب (قرطبی ج 4 ص 16) یہی حنفیہ کا مسلک ہے اور یہی راجح ہے۔ وھو الذی ذھب الیہ الحنفیۃ و رجح الثانی (ای الوقف علی الا اللہ) بانہ مذھب الاکثرین من اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والتابعین واتباعہم خصوصاً اھل السنۃ وھوَ اصح الروایات عن ابن عباس (رض) (روح ج 3 ص 84) 10 وہ تو زائغین کا حال تھا اب راسخین کا حال بھی سن لیجئے۔ راسخ فی العلم وہ لوگ ہیں۔ جو علم دین میں پختہ کار اور فہم سلیم اور طبع مستقیم کے مالک ہیں وہ متشابہات کے پیچھے نہیں پڑتے۔ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس پر ایمان ہے کہ یہ متشابہات اللہ کی طرف سے ہیں اور ان سے اللہ کی مراد برحق ہے راسخ فی العلم زیادہ سے زیادہ یہ کرتے ہیں کہ متشابہات کو محکمات کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اگر محکمات کی روشنی میں ان کا کوئی مفہوم ان کی سمجھ میں آجائے تو محکمات کی طرح اس پر بھی عمل کرلیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو پھر خاموش ہوجاتے ہیں اور صرف ایمان بالمتشابہات پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور ظن وتخمین سے ان کا کوئی مفہوم متعین کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ فاھل الحق یردون المتشابہ الی عاملہ ثم یلتمسون تاویلہ من المحکم الذی ھو ام الکتب فان وجدوہ فیہ عملوا بہ کما عملوا بالمحکم فان لم یجدوا لقصورھم لم یتجاوزوا فی ذالک الایمان بہ ولا استعملوا فیہ الظنون المحرم استعمالھا فی غیرہ فکیف بہ (المعتصر من مختصر مشکل الآثار للطحاوی ج 2 ص 165) اور لفظ روح اللہ اور کلمۃ اللہ بھی چونکہ متشابہات میں سے ہیں اس لیے ان کا صحیح مفہوم خدا کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ ظن وتخمین سے عیسائیوں نے جو ان الفاظ کا مفہوم سمجھ رکھا ہے اور جس کی بناء پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود اور الہ ٹھہرا لیا ہے۔ یہ سب ان کی کجروی اور کور باطنی کا نتیجہ ہے۔ وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا اُولُوْا الْاَلْبَابِ ۔ نصیحت صرف وہی لوگ حاصل کرتے ہیں۔ جن کی عقلیں سلیم اور جن کے ذہن صاف ہوں۔ اس سے راسخین فی العلم کی مدح وثنا کی طرف اشارہ ہے۔