I do not ask for any Reward for conveying the Message Allah commands His Messenger to: قُلْ ... Say, Allah commands His Messenger to say to the idolators: ... مَا سَأَلْتُكُم مِّنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ... Whatever wage I might have asked of you is yours. meaning, `I do not want anything for conveying the Message of Allah to you, advising you and telling you to worship Allah.' ... إِنْ أَجْرِيَ إِلاَّ عَلَى اللَّهِ ... My wage is from Allah only, means, rather I will seek the reward for that with Allah. ... وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ and He is a Witness over all things. means, He knows all things, and He knows everything about me and the manner in which I am conveying the Message to you, and He knows all about you. قُلْ إِنَّ رَبِّي يَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَّمُ الْغُيُوبِ
مشرکین کو دعوت اصلاح ۔ حکم ہو رہا ہے کہ مشرکوں سے فرما دیجئے کہ میں جو تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں تمہیں احکام دینی پہنچتا رہا ہوں وعظ و نصیحت کرتا ہوں اس پر میں تم سے کسی بدلے کا طالب نہیں ہوں ۔ بدلہ تو اللہ ہی دے گا جو تمام چیزوں کی حقیقت سے مطلع ہے میری تمہاری حالت اس پر خوب روشن ہے ۔ پھر جو فرمایا اسی طرح کی آیت ( رَفِيْعُ الدَّرَجٰتِ ذُو الْعَرْشِ ۚ يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ 15ۙ ) 40-غافر:15 ) ، ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فرمان سے حضرت جبرائیل کو جس پر چاہتا ہے اپنی وحی کے ساتھ بھیجتا ہے ۔ جو حق کے ساتھ فرشتہ اتارتا ہے ۔ وہ علام الغیوب ہے اس پر آسمان و زمین کی کوئی چیز مخفی نہیں ، اللہ کی طرف سے حق اور مبارک شریعت آ چکی ۔ باطل پراگندہ بودا ہو کر برباد ہو گیا ۔ جیسے فرمان ہے ( بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۭ وَلَـكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ 18 ) 21- الأنبياء:18 ) ہم باطل پر حق کو نازل فرما کر باطل کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں اور وہ چکنا چور ہو جاتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے دن جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو وہاں کے بتوں کو اپنی کمان کی لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور زبان سے فرماتے جاتے تھے ( وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81 ) 17- الإسراء:81 ) حق آ گیا باطل مٹ گیا وہ تھا ہی مٹنے والا ۔ ( بخاری ۔ مسلم ) باطل کا اور ناحق کا دباؤ سب ختم ہو گیا ۔ بعض مفسرین سے مروی ہے کہ مراد یہاں باطل سے ابلیس ہے ۔ یعنی نہ اس نے کسی کو پہلے پیدا کیا نہ آئندہ کر سکے ، نہ مردے کو زندہ کر سکے ، نہ اسے کوئی اور ایسی قدرت حاصل ہے ۔ بات تو یہ بھی سچی ہے لیکن یہاں یہ مراد نہیں ۔ واللہ اعلم ، پھر جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ خیر سب کی سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اللہ کی بھیجی ہوئی وحی میں ہے ۔ وہی سراسر حق ہے اور ہدایت و بیان و رشد ہے ۔ گمراہ ہونے والے آپ ہی بگڑ رہے ہیں اور اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جب کہ مفوضہ کا مسئلہ دریافت کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہو تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہو تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہے ۔ وہ اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور قریب ہے ۔ پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے ۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے ۔ جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب و مجیب ہے ۔
47۔ 1 اس میں اپنی بےغرضی اور دنیا کے مال و متاع بےرغبتی کا مزید اظہار فرما دیا تاکہ ان کے دلوں میں اگر یہ شک و شبہ پیدا ہو کہ اس دعوی نبوت سے اس کا مقصد کہیں دنیا کمانا تو نہیں، تو وہ دور ہوجائے۔
[ ٧٢] دوسری یہ بات بھی سوچو کہ جب سے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا ہے۔ دن رات اسی کام میں لگا ہوا ہوں۔ تم سب لوگوں کی دشمنی بھی مول لے لی ہے۔ اپنا روزگار بھی ختم کردیا ہے۔ تم سے بھی نہ کوئی معاوضہ طلب کرتا ہوں نہ کوئی دوسری غرض رکھتا ہوں۔ تو کیا ایک دنیادار یا فریب کار اور اقتدار کا بھوکا یہ کام کرسکتا ہے یا ایسی بےلوٹ خدمت سرانجام دے سکتا ہے ؟ میں تم سے پیسہ نہیں مانگتا البتہ یہ ضرور چاہتا ہوں کہ تم غلط راستہ کو چھوڑ کر سیدھے راستہ کی طرف آجاؤ۔ یہی میرا تم سے معاوضہ ہے اور یہی مطالبہ ہے اور اس میں تمہاری ہی بھلائی ہے۔
قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۔۔ : یہ دوسری تلقین ہے کہ اس بات کی صراحت کردیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے پر میں تم سے کوئی اجرت یا معاوضہ تو نہیں مانگتا، میں نے تم سے جو بھی اجرت مانگی ہے تو وہ تمہاری ہوئی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ اگر تم نے مجھے کچھ دیا ہے تو وہ تم لے لو، جب اسے معلوم ہو کہ اس نے اسے کچھ نہیں دیا، مطلب صرف اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ تم نے مجھے کچھ دیا ہی نہیں جو میں تمہیں واپس دوں۔ ایسے ہی یہاں فرمایا کہ اگر میں نے تم سے کوئی مزدوری مانگی ہے تو وہ تمہاری ہوئی۔ مطلب یہ کہ میں نے تم سے کوئی مزدوری مانگی ہی نہیں، میری دعوت تو محض تمہاری خیر خواہی کے لیے ہے، جیسا کہ ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو فرمایا : (وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) [ الشعراء : ١٢٧] ” اور میں اس پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، میری اجرت تو رب العالمین ہی کے ذمے ہے۔ “ دوسرا معنی یہ ہے کہ میں نے یہ پیغام پہنچا کر تم سے کسی چیز کا سوال کیا ہے تو وہ تمہارے ہی فائدے کی چیز ہے۔ میرا تم سے مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب تعالیٰ کی طرف جانے والا راستہ اختیار کرو، جیسا کہ فرمایا : (قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا) [ الفرقان : ٥٧ ] ” کہہ دے میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا مگر جو چاہے کہ اپنے رب کی طرف کوئی راستہ اختیار کرے۔ “ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ : یعنی الزام لگانے والے جو کچھ چاہیں کہتے رہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ میری مزدوری اللہ کے ذمے ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ میرے صدق اور خلوص نیت پر گواہ ہے کہ اس کا پیغام پہنچانے میں مجھے دنیا کی کسی چیز کا طمع نہیں، نہ میں اس کے سوا کسی سے کسی مزدوری یا بدلے کا طلب گار ہوں، نہ اس کی خواہش رکھتا ہوں۔
قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَہُوَلَكُمْ ٠ ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللہِ ٠ ۚ وَہُوَعَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ ٤٧ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر : مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه . شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔
آپ ان سے فرما دیجیے کہ اگر میں نے تم سے کوئی معاوضہ مانگا ہو تو وہ تمہارا ہی رہا میرا ثواب و معاوضہ تو بس اللہ ہی کے ذمہ ہے اور وہ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔
آیت ٤٧ { قُلْ مَا سَاَلْتُکُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَہُوَ لَکُمْ } ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ اگر میں نے تم سے کچھ اجرت مانگی ہو تو وہ تمہارے ہی لیے ہے۔ “ یہ ایک ایسا اندازِ بیان ہے جس میں ” نفی “ کی گویا انتہا ہے کہ میں نے اس کام کے عوض اگر کوئی اجرت طلب کی ہو تو وہ تم ہی کو مبارک ہو ! میں دن رات دعوت کے اس کام میں ہمہ تن مصروف ہوں ‘ مگر میں اس پر تم لوگوں سے کسی قسم کی کوئی اُجرت ‘ کوئی معاوضہ اور کوئی صلہ طلب نہیں کرتا۔ تم لوگ اس کلام کو کبھی شاعری کہتے ہو اور کبھی پرانے زمانے کی کہانیوں سے تشبیہہ دیتے ہو۔ مگر تم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ شاعروں کی شاعری اور قصہ خوانوں کی کہانیوں کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ وہ لوگ تو اپنے سامعین کا دل بہلا کر اجرت کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور اپنے کلام کی داد انعامات کی صورت میں وصول کرنا چاہتے ہیں۔ کیا تمہیں مجھ میں اور ایسے پیشہ ور فنکاروں میں واقعی کچھ فرق نظر نہیں آتا ؟ { اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ} ” میرا ا جر تو اللہ ہی کے ذمہ ہے ‘ اور وہ ہرچیز پر گواہ ہے۔ “
68 Another meaning of this can be: "I do not sock anything but your well-being: My only recompense is that you should be refomed." This thing has been expressed at another place thus; "O Prophet, say to them: I do not ask of you any recompense for this: I only ask of the one, who will, to adopt the way of his Lord." (Al-Furqan 57) 69 That is, "The accusers may say whatever they like but Allah knows everything. He is a witness that I am a selfless person:, I am not perforating this mission for any selfish motive "
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :68 اصل الفاظ ہیں مَا سَاَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍ فَھُوَ لَکُمْ ۔ اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو اوپر ہم نے ترجمہ میں بیان کیا ہے ۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہاری بھلائی کے سوا میں اور کچھ نہیں چاہتا ، میرا اجر بس یہی ہے کہ تم درست ہو جاؤ ۔ اس مضمون کو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں ادا کیا گیا ہے : قُلْ مَآ اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ یَّتَّخِذَ اِلیٰ رَبِّہ سَبِیْلاً ۔ ( الفرقان 57 ) اے نبی ، ان سے کہو میں اس کام پر تم سے کوئی اجر اس کے سوا نہیں مانگتا کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :69 یعنی الزام لگانے والے جو کچھ چاہیں الزام لگاتے رہیں ، مگر اللہ سب کچھ جانتا ہے ، وہ گواہ ہے کہ میں ایک بے غرض انسان ہوں ، یہ کام اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے نہیں کر رہا ہوں ۔
٤٧ تا ٤٩۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد فرماتا ہے کہ مشرکوں سے اس طرح کہیں کہ میں جو تم کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتا ہوں اور خدا کی عبادت کا تم کو حکم کرتا ہوں اس کے اوپر میں تم سے کچھ اجرت نہیں طلب کرتا نہ کچھ انعام چاہتا ہوں تم اپنا بھی اور تمہاری کو بھی سب چیز اس کے سامنے ہے کچھ اس سے پوشیدہ نہیں اسے خوب معلوم ہے کہ میں تم سے کچھ اجر نہیں چاہتا قرآن یہ بھی فرمایا کہ قرآن اللہ غیب دان کا کلام ہے اس واسطے اس میں غیب کی خبریں ہیں فرمایا اس قرآن کے ذریعہ سے اب وہ دین حق آگیا جس کے سبب سے نہ آیندہ شرک کی نئی رسمیں پیدا ہوسکتی ہیں نہ مٹی ہوئی رسمیں پھر رواج پکڑ سکتی ہیں مسند امام احمد کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی معتبر روایت ایک جگہ گزر چکی ہے کہ فتح مکہ کے وقت شیطان یہ کہہ کر بہت رویا کہ آج سے شرک کی جڑامت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ میں سے اٹھ گئی یہ حدیث ومایبدی الباطل وما یعید کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آیت کے اس ٹکڑے میں شرک مٹ جانے کی جو پیشین گوئی تھی اس کا ظہور فتح مکہ کے وقت ایسا ہوا کہ جزیرہ عرب میں سے شرک کی قدیم اور جدید رسموں کے مٹ جانے پر شیطان کو رونا آگیا ‘ صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر بن عبداللہ کی حدیث ٢ ؎ ایک جگہ گزر چکی ہے (٢ ؎ مشکوۃ باب فی الوسوسہ فصل اول۔ ) جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جزیرہ عرب کی بت پرستی سے اب شیطان ناامید ہوگیا ‘ اس حدیث سے حضرت عبداللہ عباس (رض) کی روایت کو پوری تقویت ہوجاتی ہے۔
(34:47) ما سالتکم۔ ما بمعی مھما۔ جو کچھ۔ من اجر۔ ای من اجر علی تبلیغ الرسالۃ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے پیغام کو تم تک پہنچانے کا معاوضہ میں نے مانگا ہے فھو لکم وہ تمہارا ہی رہا۔ وہ تم اپنے پاس ہی رکھو، مراد یہاں نفی السوال ہے یعنی میں تو اس کا تم سے اجر مانگتا ہی نہیں۔ ان اجری۔ میں ان نافیہ ہے اجری مضاف مضاف الیہ۔ میرا اجر۔ میرا معاوضہ یہ جملہ بھی تاکید نفی السوال کے لئے آیا ہے۔
ف 7 وہ جانتا ہے کہ میں اپنے دعوائے نبوت میں سچا ہوں اور یہ دعوت کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں ہے۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق فی الرسالۃ کی دوسری دلیل ہے۔ ( کبیر)
5۔ یعنی تم اپنے ہی پاس رکھو یہ محاورہ میں نفی ہے طلب اجر کی، بطریق مبالغہ۔ 6۔ معاوضہ میں مال اور جاہ یعنی ریاست سب آگیا، کیونکہ اعیان و اعراض دونوں میں اجر ملنے کی صلاحیت ہے، مطلب یہ کہ میں تم سے کسی غرض کا طالب نہیں ہوں۔
فہم القرآن ربط کلام : آدمی کی حماقت کی ایک وجہ اس کا مفاد اور لالچ ہوا کرتا ہے نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں سے کوئی دنیوی مفاد نہ تھا جس بنا پر کفار کے سامنے حق بیان کرتے ہوئے چار استفسار کیے گئے ہیں۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! انہیں فرما دیں کہ کیا میں نے تم سے اس دعوت کے کام پر کسی قسم کا کوئی مطالبہ کیا ہے جس بنا پر تم مجھے مجنون کہتے ہو ؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ میں کسی لالچ کے پیش نظرتمہارے نظریات کی مخالفت کرتا ہوں ؟ ہرگز نہیں میرا مقصد تمہاری اصلاح کرنا ہے۔ لہٰذا اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ میرا صلہ میرے رب کے ذمہ ہے جو میرے اور تمہارے احوال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا رب مجھ پر حق نازل کرتا ہے جسے میں من و عن تم تک پہنچا رہا ہوں۔ اس سے کسی کا کوئی معاملہ اور بات پوشیدہ نہیں کیونکہ وہ ہر قسم کے غیب سے واقف ہے۔ یاد رکھو ! حق آشکا رہ ہوچکا ہے کہ معبودان باطل نے نہ پہلی بار کسی چیز کو پیدا کیا اور نہ دوسری مرتبہ کسی کو پیدا کرسکتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود تم اپنے نقطہ نظر کے مطابق مجھے بھٹکا ہوا سمجھتے ہو تو اس کا وبال مجھ پر ہوگا اگر میں ہدایت پر ہوں تو یہ اس وحی کا نتیجہ ہے جو میری طرف میرا رب بھیجتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر بات فوری طور پر سننے والا ہے۔ یہ آپ کے بارے میں ایک سوال کا جواب ہے ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورة یٰس میں قسم کھا کر فرمایا ہے۔ (یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) [ یٰسٓ: ١ تا ٤] ” یٰسٓ۔ قسم ہے قرآن حکیم کی۔ کہ یقیناً آپ رسولوں میں سے ہیں۔ اور سیدھے راستے پر ہو۔ “ ان آیات میں قل کہہ کر چار باتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے کہلوائی گئی ہیں۔ 1 میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ 2 جو کچھ میں تمہیں پہنچاتا ہوں وہ ” اللہ “ ہی کا نازل کرتا ہے۔ 3 حق یہ ہے کہ معبودان باطل نہ پہلی بار پیدا کرسکتے ہیں اور نہ دوسری بار 4 یقیناً میں اپنے رب کی ہدایت پر ہوں۔ مسائل ١۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت کے بدلے میں کچھ نہیں لیتے تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر بات سے باخبر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حق نازل فرمایا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ ہر بات فی الفور سنتا ہے۔ ٥۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر قائم اور لوگوں تک حق پہنچانے والے تھے۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہر انسان کے قریب ہے اور اس کی ہر بات سننے والا ہے : ١۔ بیشک میرا رب دعاؤں کو سننے والا ہے۔ ( آل عمران : ٣٨) ٢۔ بیشک اللہ دعاؤں کو سننے والا ہے۔ ( ابراہیم : ٣٩) ٣۔ اللہ سے ڈر جاؤ اللہ تعالیٰ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات : ١) ٤۔ اللہ تعالیٰ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ (ق : ١٦) ٥۔ اللہ تعالیٰ انسان کے قریب ہے اور ہر کسی کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ : ١٨٦)
قل ما سالتکم۔۔۔۔۔ کل شیئ شھید (47) ” “۔ پہلے تو آپ نے ان کو دعوت دی کہ تم لوگ اکیلئے یا دو دو مل کر تحریک اسلامی پر غور کرو کہ تمہارے ساتھی کی دعوت میں آخر جنوں کی کیا بات ہے۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کے ڈرانے میں اس قدر مگن ہیں اور لوگوں کو شدید عذاب سے ڈرا رہے ہیں۔ آخر اس میں ان کا مفاد کیا ہے۔ اس کے اسباب کیا ہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا فائدہ ہے۔ اس حقیقت کی طرف ان لوگوں کی سوچ اور قوت استدلال کو نہایت ہی موثر انداز میں متوجہ کیا جاتا ہے۔ قل ما سالتکم من اجر فھو لکم (34: 47) ” کہو میں اگر تم سے کوئی اجر مانگتا ہوں تو وہ تم ہی لے لو “۔ یہ اجر تمہیں ہی مبارک ہو۔ یہ نہایت ہی طنز یہ انداز ہے اور اس میں ان کے لیے سرزتش بھی ہے ۔ ان اجری الا علی اللہ (34: 47) ” میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے “۔ اسی نے مجھے اس کام پر لگایا ہے ۔ وہی معاوضہ دے گا ۔ میں اسی سے امید رکھتا ہوں اور جو شخص اللہ کے عطیہ کا امید وار ہو ، اس کے نزدیک پھر اہل دنیا کا ہر عطیہ حقیر اور بےقیمت ہوجاتا ہے ۔ اس کے بارے میں ایسا شخص سوچتاہی نہیں ہے ۔ وھو علی کل شئی شھید (34: 47) ” وہ ہر چیز پر گواہ ہے “۔ وہ جانتا ہے ، دیکھتا ہے اور اس سے کوئی چیز خفیہ نہیں ہوتی ۔ وہ میرے اوپر گواہ ہے ۔ میں جو کچھ ساچتا ہوں ، جو کچھ کہتا ہوں اور جو کچھ کرتا ہوں۔ اب تیسرا مضراب :
49:۔ قل ما سالتکم الخ یہ پانچواں طریق تبلیغ ہے۔ آپ فرما دیں میں تبلیغ حق پر تم سے کوئی اجرت یا چند وغیرہ نہیں مانگتا۔ اگر میں کوئی چندہ یا اجرت مانگوں تو وہ تم ہی لے لینا۔ یہ سرے سے اجرت نہ لینے سے کنایہ ہے۔ والمراد نفی السؤال راسا (روح ج 22 ص 155) ۔ ان اجری الخ : میری اجرت تو اللہ کے ذمہ ہے جو ہر چیز سے باخبر ہے اور میری سچائی اور خلوص نیت کو جانتا ہے۔
(47) اے پیغمبر ! آپ ان سے فرما دیجئے جو کچھ اس تبلیغ پر میں نے تم سے اجرت اور معاوضہ طلب کیا ہو تو وہ تمہارا اور تمہارے لئے ہے۔ میرا اجر تو بس اللہ تعالیٰ ہی پر ہے وہ ہر چیز سے خبردار اور ہر چیز پر حاضروناظر ہے۔ یعنی کسی قسم کا معاوضہ خواہ وہ اعیان کی شکل میں ہو یا اعراض کی شکل میں وہ سب تمہارا، جیسے ہمارے ہاں بھی محاورہ ہے کہ میں نے کچھ لیا ہو تو وہ تم لے لو مبالغہ کے طور پر یہ بات کہی جاتی ہے جب کسی قسم کا کوئی ذاتی نفع مقصود ہی نہیں ہے تو لینا دینا کیسا اور یہ امر بالکل ظاہر ہے کہ تبلیغ محض خدا کے واسطے تھی اس تبلیغ پر کوئی نقد یا سامان وصول کرنا مقصود ہی نہ تھا۔ اس لئے فرمایا میرا نیگ اور ثواب تو اللہ تعالیٰ پر ہے وہی مجھ کو صلہ دے گا اور وہ ہر چیز پر مطلع اور خبردار ہے اگر کوئی چیز میں لیتا ہوں تو وہ خوب جانتا ہے آگے حق کا غالب ہونا اور دین حق کے غلبے کا ذکر ہے۔