اب یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند واقعات آ رہے ہیں۔ آیت ١٢ (وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ج) یعنی اے مسلمانو ! جس طرح آج تم سے یہ میثاق لیا گیا ہے اور اللہ نے تمہیں شریعت کے میثاق میں باندھ لیا ہے ‘ بالکل اسی طرح کا میثاق اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی لیا تھا۔ (وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط) ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ ہر قبیلے میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک نقیب مقرر کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انصار میں بارہ نقیب فرمائے تھے ‘ نو خزرج میں سے اور تین اوس سے۔ (وَقَال اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط) ۔ میری مدد ‘ میری تائید ‘ میری نصرت تمہارے ساتھ شامل حال رہے گی ۔ (لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ ) (وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ ) (وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ ) یہ جن رسولوں کا ذکر ہے وہ پے در پے بنی اسرائیل میں آتے رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تو رسالت کا یہ سلسلہ ایک تار کی مانند تھا جو چھ سو برس تک ٹوٹا ہی نہیں۔ پھر ذرا سا وقفہ چھ سوبرس کا آیا اور پھر اس کے بعد نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ (وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ) یعنی اللہ کے دین کے لیے مال خرچ کرتے رہے ۔
32 ابتدائے سورت میں ایفائے عقود اور اسلام کے حدود و احکام کی پابندی کا حکم دیا اس کے بعد تحلیل و تحریم کی کچھ حدود بیان فرمائیں اور آخر میں ماننے والوں اور مذکورہ عہود پورا کرنے والوں کو اخروی بشارت اور نہ ماننے والوں اور نقص عہد کرنے والوں کو اخروی عذاب کی وعید سنائی۔ اب یہاں سے نقض عہد (عہد توڑنے) کی سزا کے دو نمونے بیان فرمائے تاکہ مسلمان ان سے عبرت حاصل کریں اور نقض عہد سے بچیں پہلے بنی اسرائیل (یہود) سے عہد لینے کا ذکر فرمایا۔ میثاق سے یہاں اللہ کی توحید کو قائم کرنے، شرک سے بچنے اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کا عہد مراد ہے اس کی طرف لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃ الخ میں اشارہ ہے۔ ومعنی الایۃ ان اللہ اخذ میثاقہم ان یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا وان یعملوا بما فی التوراۃ من الاحکام والتکالیف (خازن ج 2 ص 21) ۔ وَ بَعَثْنَا مِنْھُمْ الخ نقیب کے معنی قوم کے سردار اور قوم کی طرف سے ذمہ داری اٹھانے والے کے ہیں۔ النقیب کبیر القوم (قرطبی ج 6 ص 112) قال ابن عباس النقیب الضمین (خازن) ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ہر قبیلے کا ایک سردار منتخب کریں اور ہر سردار کے ذریعے اس کے قبیلے سے مذکورہ بالا عہد و پیمان کی پابندی کرائیں۔ امر جل شانہ موسیٰ (علیہ السلام) ان یاخذ من کل سبط کفیلا علیھم بالوفاء فیما امروا بہ فاخذ علیھم المیثاق الخ (روح ج 6 ص 85) ۔ 33 معیت سے یہاں مراد معیت معنوی ہے۔ اس میں خطاب نقباء سے ہے یا تمام بنی اسرائیل سے یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں تمہارے افعال کو دیکھتا اور تمہارے اقوال کو سنتا ہوں اگر عہد پورا کرو گے تو میری حمایت اور تائید و نصرت تمہارے ساتھ ہوگی اور اگر نقض عہد کرو گے تو میں سزا دینے پر بھی قادر ہوں۔ والمعنی انی معکم بالعلم والقدرۃ فاسمع کلامکم واری افعالکم واعلم ضمایرکم واقدر علی ایصال الجزاء الیکم (کبیر ج 3 ص 564) ۔34 یہ جملہ شرطیہ ہے جو میثاق مذکور سے متعلق پانچ امور پر مشتمل ہے۔ 1 ۔ اگر تم نماز قائم کرو گے۔ 2 ۔ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ اور صدقاتِ واجبہ ادا کروگے۔ 3 ۔ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ اور میرے تمام رسولوں پر ایمان لاؤ گے۔ 4 ۔ وَ عَزَّرْتُمُوْھُمْ اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کروگے اور ان کا ساتھ دو گے۔ 5 ۔ وَ اَقْرَضْتُمُ اللہَ اور نفلی صدقات سے قوم کے غرباء کی امداد کرتے رہو گے۔ لَاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ ۔ یہ شرط مذکور کی جزا ہے یعنی اگر تم مذکورہ احکام بجا لاؤ گے تو ہم اس کی جزا یہ دینگے کہ تمہارے گناہ معاف کردینگے اور تمہیں جنت میں داخل کرینگے۔ 35 جس نے اس مؤکد عہد اور پختہ میثاق کے بعد اس کی کسی ایک شق کو توڑ دیا تو وہ بلاشبہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا اور کھلی گمراہی میں جا پڑا اور اس کی کوئی معذرت قبول نہ ہوگی۔