• TAFASEER
      OF SURAH-5 VERSE-12
    • Tafaseer
    • Search Quran
    • Register/Login
  • TrueOrators.com
    Islamic Search Engine
    • اللہ
      Name of Allah
    • The Noble Quran
      • by Parah
      • by Surah
      • by Topics
      • by Arabic Word
    • Hadith Collection
      • Sahih Bukhari
      • Sahih Muslim
      • Jam e Tirmazi
      • Sunnan Abu Dawood
      • Sunnan Nisai
      • Sunnan Ibn e Maja
      • Silsila Sahih
      • Musnad Ahmad
      • Muwtta Amam Malik
      • Mishkat
    • PDF Books
    • Articles
    • Orators of Islam

    • Contributors
    • Developers
    • Feedback
    • Introduction

    • Subscribe to Channel
    • Like us on Facebook
    • Follow us on Twitter
  • Report
    this page
    Leave a
    feedback
    Contact with
    developers
    Report this page
    Register / Login
    Select Tafaseer to display
    Surat ul Maeeda
    Parah: 6Surah: 5Verse: 12

    سورة المائدة

    وَ لَقَدۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ۚ وَ بَعَثۡنَا مِنۡہُمُ اثۡنَیۡ عَشَرَ نَقِیۡبًا ؕ وَ قَالَ اللّٰہُ اِنِّیۡ مَعَکُمۡ ؕ لَئِنۡ اَقَمۡتُمُ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَیۡتُمُ الزَّکٰوۃَ وَ اٰمَنۡتُمۡ بِرُسُلِیۡ وَ عَزَّرۡتُمُوۡہُمۡ وَ اَقۡرَضۡتُمُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ فَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۱۲﴾

    And Allah had already taken a covenant from the Children of Israel, and We delegated from among them twelve leaders. And Allah said, "I am with you. If you establish prayer and give zakah and believe in My messengers and support them and loan Allah a goodly loan, I will surely remove from you your misdeeds and admit you to gardens beneath which rivers flow. But whoever of you disbelieves after that has certainly strayed from the soundness of the way."

    اور اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل سے عہد و پیماں لیا اور انہی میں سے بارہ سردار ہم نےمقرر فرمائے اور اللہ تعالٰی نے فرمادیا کہ یقیناً میں تمہارے ساتھ ہوں ، اگر تم نماز قائم رکھو گے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے رسولوں کو مانتے رہو گے اور ان کی مدد کرتے رہو گے اور اللہ تعالٰی کو بہتر قرض دیتے رہو گے تو یقیناً میں تمہاری برائیاں تم سے دور رکھوں گا اور تمہیں ان جنتوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے چشمے بہہ رہے ہیں ، اب اس عہد و پیمان کے بعد بھی تم میں سے جو انکاری ہو جائے وہ یقیناً راہ راست سے بھٹک گیا ۔
    Copy Arabic Copy English Copy Urdu Copy All Languages
    Share on Facebook Share on Twitter Share on Whatsapp
    Create Picture for Post
    • Tafaseer
    • Translations
    • Word by Word
    • Root Words
    Bayan ul Quran
    by Dr Israr Ahmed

    اب یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند واقعات آ رہے ہیں۔ آیت ١٢ (وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ج) یعنی اے مسلمانو ! جس طرح آج تم سے یہ میثاق لیا گیا ہے اور اللہ نے تمہیں شریعت کے میثاق میں باندھ لیا ہے ‘ بالکل اسی طرح کا میثاق اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی لیا تھا۔ (وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط) ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ ہر قبیلے میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک نقیب مقرر کیا۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انصار میں بارہ نقیب فرمائے تھے ‘ نو خزرج میں سے اور تین اوس سے۔ (وَقَال اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط) ۔ میری مدد ‘ میری تائید ‘ میری نصرت تمہارے ساتھ شامل حال رہے گی ۔ (لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ ) (وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ ) (وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ ) یہ جن رسولوں کا ذکر ہے وہ پے در پے بنی اسرائیل میں آتے رہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تو رسالت کا یہ سلسلہ ایک تار کی مانند تھا جو چھ سو برس تک ٹوٹا ہی نہیں۔ پھر ذرا سا وقفہ چھ سوبرس کا آیا اور پھر اس کے بعد نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ (وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ) یعنی اللہ کے دین کے لیے مال خرچ کرتے رہے ۔

    Dr Israr Ahmed (intro)

    1. بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد)
    ڈاکٹر اسرار احمد ایک ممتاز پاکستانی مسلمان سکالر تھے، جو پاکستان، بھارت، مشرق وسطیٰ اور امریکہ میں اپنا دائرہ اثر رکھتے تھے۔ آپ بھارت کے ضلعہریانہ میں مؤرخہ 26 اپریل 1932 ء کو پیدا ہوئے۔
    آپ تنظیم اسلامی کے بانی تھے، جو پاکستان میں نظام خلافت کے قیام کی خواہاں ہے۔ تنظیم اسلامی کا مرکزی ہیڈکوارٹر لاہور، پاکستان میں واقع ہے۔
    تعلیمی پس منظر
    قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہوگئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا . 1954 میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971 تک میڈیکل پریکٹس کی .
    سیاسی زندگی[ترمیم ]
    دوران تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے . تملیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کردیا اور 1975 میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے . 1981 میں آپ جنرل ضیا الحق کی مجلس شورئ کے بھی رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسی سال ستارہ امتیاز سے نوازا . آپ مروجہ انتخابی سیاست کے کے مخالف تھے اور خلافت راشدہ کے طرز عمل پر یقین رکھتے تھے . آپ اسلامی ممالک میں مغربی خصوصا امریکی فوجی مداخلت کے سخت ناقد تھے .
    بحیثیت اسلامی اسکالر
    تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لئے وقف کردی تھیں . آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے ‍قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں . مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کئے . عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی . بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو ، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں . بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا .
    وفات
    ڈاکٹر اسرار احمد کافی عرصے سے دل کے عارضے اور کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے۔ بالآخر مؤرخہ 14 اپریل 2010 ء کو 78 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ کو گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے پسماندگان میں ان کی بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔

    Jawahir ur Quran
    by Moulana Ghulamullah Khan

    32 ابتدائے سورت میں ایفائے عقود اور اسلام کے حدود و احکام کی پابندی کا حکم دیا اس کے بعد تحلیل و تحریم کی کچھ حدود بیان فرمائیں اور آخر میں ماننے والوں اور مذکورہ عہود پورا کرنے والوں کو اخروی بشارت اور نہ ماننے والوں اور نقص عہد کرنے والوں کو اخروی عذاب کی وعید سنائی۔ اب یہاں سے نقض عہد (عہد توڑنے) کی سزا کے دو نمونے بیان فرمائے تاکہ مسلمان ان سے عبرت حاصل کریں اور نقض عہد سے بچیں پہلے بنی اسرائیل (یہود) سے عہد لینے کا ذکر فرمایا۔ میثاق سے یہاں اللہ کی توحید کو قائم کرنے، شرک سے بچنے اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے اور اس کے احکام کی پیروی کرنے کا عہد مراد ہے اس کی طرف لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃ الخ میں اشارہ ہے۔ ومعنی الایۃ ان اللہ اخذ میثاقہم ان یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا وان یعملوا بما فی التوراۃ من الاحکام والتکالیف (خازن ج 2 ص 21) ۔ وَ بَعَثْنَا مِنْھُمْ الخ نقیب کے معنی قوم کے سردار اور قوم کی طرف سے ذمہ داری اٹھانے والے کے ہیں۔ النقیب کبیر القوم (قرطبی ج 6 ص 112) قال ابن عباس النقیب الضمین (خازن) ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے ہر قبیلے کا ایک سردار منتخب کریں اور ہر سردار کے ذریعے اس کے قبیلے سے مذکورہ بالا عہد و پیمان کی پابندی کرائیں۔ امر جل شانہ موسیٰ (علیہ السلام) ان یاخذ من کل سبط کفیلا علیھم بالوفاء فیما امروا بہ فاخذ علیھم المیثاق الخ (روح ج 6 ص 85) ۔ 33 معیت سے یہاں مراد معیت معنوی ہے۔ اس میں خطاب نقباء سے ہے یا تمام بنی اسرائیل سے یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں تمہارے افعال کو دیکھتا اور تمہارے اقوال کو سنتا ہوں اگر عہد پورا کرو گے تو میری حمایت اور تائید و نصرت تمہارے ساتھ ہوگی اور اگر نقض عہد کرو گے تو میں سزا دینے پر بھی قادر ہوں۔ والمعنی انی معکم بالعلم والقدرۃ فاسمع کلامکم واری افعالکم واعلم ضمایرکم واقدر علی ایصال الجزاء الیکم (کبیر ج 3 ص 564) ۔34 یہ جملہ شرطیہ ہے جو میثاق مذکور سے متعلق پانچ امور پر مشتمل ہے۔ 1 ۔ اگر تم نماز قائم کرو گے۔ 2 ۔ وَ اٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ اور صدقاتِ واجبہ ادا کروگے۔ 3 ۔ وَ اٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ اور میرے تمام رسولوں پر ایمان لاؤ گے۔ 4 ۔ وَ عَزَّرْتُمُوْھُمْ اور دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کروگے اور ان کا ساتھ دو گے۔ 5 ۔ وَ اَقْرَضْتُمُ اللہَ اور نفلی صدقات سے قوم کے غرباء کی امداد کرتے رہو گے۔ لَاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ ۔ یہ شرط مذکور کی جزا ہے یعنی اگر تم مذکورہ احکام بجا لاؤ گے تو ہم اس کی جزا یہ دینگے کہ تمہارے گناہ معاف کردینگے اور تمہیں جنت میں داخل کرینگے۔ 35 جس نے اس مؤکد عہد اور پختہ میثاق کے بعد اس کی کسی ایک شق کو توڑ دیا تو وہ بلاشبہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا اور کھلی گمراہی میں جا پڑا اور اس کی کوئی معذرت قبول نہ ہوگی۔

    Moulana Ghulamullah Khan (intro)

    حضرت مولانا غلام اللہ خان
    حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب (رح)
    خاندان : آپ 1909 ء کو جناب فیروزخان صاحب کے گھر ” وریہ “ متصل حضرو ضلع کمیلپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدصاحب دیندار اورگاؤں کے نمبردار تھے ۔ قومیت کے لحاظ سے ” اعوان “ ہیں۔ تعلیم : حضروہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا اور پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا۔ پہلا سے ابتدائی فارسی اور صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر شاہ محمد ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی صاحب اور انکے بڑے بھائی مولانا محمداسماعیل صاحب ساکن کو کل ، ہزارہ سے مختلف کتب کا درس لے، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھو اورمولانا محمد دین صاحب سے پڑھیں، پھر انہی ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول صاحب اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ صاحب سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ ، جلالین ، بیضاوی اور ترجمہ قرآن کریم بھی یہیں پڑھا۔ بعدا زاں حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) ساکن واں بچھراں ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے ۔ ان سے تفسیر قرآن کریم کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کیلئے رخت سفر باندھا۔ امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان صاحب ہزاروی (رح) نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں ۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں 1933 ء میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، پھر حضرت علامہ محمدانور شاہ کشمیری (رح) کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی صاحب (رح) کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ” برکات الاسلام “ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے۔ پھر شیخ عبدالغنی صاحب آپ کو 1939 ء میں وزیرآباد سے راولپنڈی لے آئے ۔ یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا ، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا ۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا ۔ پہلی مرتبہ جب دورۂ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے ۔

    Website Developed by TechWare House
    Copyright © 2018-20